آسٹریلیا کے سابق ٹیسٹ بیٹسمین ڈین جونز کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ اب ختم ہونے کے قریب ہے ، تماشائی ٹیسٹ کرکٹ میں دلچسپی نہیں لے رہے ،نتیجہ یہ ہے کہ اسپانسر شپ ختم ہورہی ہے ،شائقین کی دلچسپی بڑھانے کے لیے نت نئے تجربے کئے جا رہے ہیں ، تماشائیوں کی آسانی کے لئے اب ٹیسٹ میچ ڈے اینڈ نائٹ کرائے جا رہے ہیں ساتھ ہی بال کا رنگ بھی تبدیل کر کے سرخ سے گلابی کیا گیا ہے ۔
لیکن ڈین جونز کا خیال ہے کہ یہ کوششیں بھی بار آور ثابت نہیں ہوں گی اور ان کے خیال میں ٹیسٹ کرکٹ اب زیادہ سے زیادہ دس سال کی مہمان ہے۔
ڈیلی ٹیلیگراف کے مبصر سائمن ہیفر تو ٹیسٹ کرکٹ سے سخت نالاں اور مایوس ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ ٹیسٹ کرکٹ نہایت واہیات ہوچکی ہے ، اب نہ اعلیٰ درجے کے اسپنرز سامنے آرہے ہیں نہ بیٹسمین ،اور اب فیصلوں کے خلاف اپیل کے لئے ڈی آر ایس کا استعمال ہورہا ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ اصلی امپائر کی جگہ مشینی امپائر ، روبوٹ لے لیں ۔
اور تو اور مشہور زمانہ آسٹریلوی لیگ اسپنر شین وارن بھی آسٹریلوی ٹیم کی پے درپے شکست اور ٹیسٹ کے گرتے معیار کے نتیجے میں مایوس نظر آنے لگے ہیں۔
شین وارن کا ماننا ہےکہ ٹیسٹ کرکٹ کو زیادہ دلچسپ اور فیصلہ کن بنانے کےلئے اس کو زیادہ اٹیکنگ بنایا جائے ، پچز فلیٹ نہ رکھی جائیں اور کپتان بھی دفاعی انداز اختیار نہ کریں ، شین وارن کی رائے میں اگر اسی طرح کی کرکٹ کھیلی جاتی رہی تو یہ ختم ہوجائےگی۔
اب کیا کیا جائے؟؟ کرکٹ کی اس اعلیٰ ارفع قسم کو کیسے بچایا جائے ؟؟ شائقین کو اسٹیڈیم واپس کیسے لایا جائے، اسپانسرز کو کس طرح راغب کیا جائے ، پروموشن کے لئے مزید کیا کیا جائے ، ٹیسٹ کرکٹ کی اصلاح کس طرح کی جائے تاکہ اسے یقینی نتیجہ خیز بنایا جا سکے ؟
جس طرح مقدمے میں شک کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے اور الزام ثابت کرنا اور جج کو مطمئن کرنا مدعی کی ذمہ داری ہوتی ہے اسی طرح کرکٹ میں بیٹسمین زیادہ فائدے میں رہتے ہیں حتیٰ کہ شک کافائدہ بھی بیٹسمین کو ملتا ہے،بولرز کےحصے میں تو صرف برائی اور تنقید ہی آتی ہے ۔
اور اگر انتھک محنت اور کارکردگی سے کوئی بالر ٹیم کو میچ جتانے میں کامیاب ہوجائے اور میچ کو فیصلہ کن بنادے تو اس پر بال ٹیمپرنگ کا الزام لگا دیا جاتا ہے اور آؤٹ نہ کرے تواس پر میچ فکسنگ کا الزام لگ جاتا ہے۔ یہ نہ ہو تو بالر بے چارے کے ایکشن کے زاویے ناپے جاتے ہیں۔ ہاتھ اعشاریہ ایک سینٹی میٹربھی خم کھاجائےتو بالر کاکیریئرختم ہوجاتا ہے۔ اس تمام صورتحال کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اس کی توجہ بولنگ سے ہٹ کر ہاتھ گھمانے کے انداز، بال کو چمکانے کے طریقے اور دیگر غیر اہم چیزوں پر ہو جاتی ہے۔
بیٹسمینوں کی تو دونوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہو تا ہے ، وہ دونوں ہاتھوں سے شاٹ مارے ، خوبصورت اور اسٹائلش اسٹروکس کھیلنے کے بجائے الٹے سیدھے ہاتھ چلائے ، ہیلی کاپٹر شاٹ لگائے،یا ریورس سوئیپ کے نام پر بے ہودہ شاٹ لگا کر کرکٹ کے حسن کو خراب کرے،اس کو ہر طرح سے اجازت ہے، دائیں ہاتھ سے کھیلتے کھیلتے اچک کر بائیں ہاتھ سے کھیلنا شروع ہو جائے ، سب جائز ہے ، سب زبردست ہے ، وہ جو کہتے ہیں کہ اس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا ، بولر کی ایڑھی ذرا سی لائن سے باہر تو نو بال ہو جائے اور بولر پر جرمانہ عائد کر دیا جائے اور فری ہٹ کی صورت میں بیٹسمین کو کھلی چھٹی مل جائے کہ وہ اس بال پر جیسے چاہے شاٹ لگائے ، کیچ ہو جائے یا بولڈ ، وہ آؤٹ نہیں ہو گا، ہاں اپنی بے وقوفی یا غلطی سے اسٹمپ یا رن آوٹ ہو جائے تو الگ بات ہے۔
دوسری طرف بیٹسمین کریز چھوڑ کر کئی فٹ آگے چلا جائے یا سیدھے اور صحیح طریقے کے بجائے الٹی شاٹ کھیلے تو اس پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی جاتی، بیٹسمینوں یا آل راؤنڈرز کی کلاس کرکٹ میں اونچی مانی جاتی ہے ، وہ جنٹلمین ہوجاتا ہے ، سپر اسٹار ، ہیرو اور سلیبریٹی بن جاتا ہے ، باقی سب صرف ایک عام کھلاڑی ہی رہتے ہیں ، خواہ وہ وکٹ کیپر ہو تیز یا اسپن بالر۔
اس اعتراض کے جواب میں یہ دلیل دی جا تی ہے کہ ایسا نہیں ہے ، اگر بلے باز اچھا نہ کھیلے تو اسے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، برا کھیلنے پر ٹیم سے باہر بھی کر دیا جاتا ہے ، بڑے اچھے بلے بازوں کا کیریئر ختم ہوگیا ، دوسری طرف اچھے بولرز بھی عوام میں مقبول ہوئے اور ہیرو بن گئے ۔
ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو یہ دلیلیں درست معلوم ہوں گی مگر اب نہیں ،، جدید دور میں زیادہ سے زیادہ اور تیز تر رن بنانے کی صلاحیت کو کسی بھی ٹیم کی سب سے بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے، اسی لیے اب بلے بازوں کی سلیکشن میں اعتماد، بردباری، وکٹ پر زیادہ سے زیادہ دیر کھڑے رہنے کی صلاحیت اور اسٹائلش شاٹس کے بجائے مار دھاڑ سے بھرپور کھیل کو معیار بنا دیا گیا ہے۔ کرکٹ پر مباحثے کے پروگراموں میں چھکے چوکے گنے جا رہے ہوتے ہیں۔ بلے باز کی تسلسل سے پرفارمنس کے بجائے اتفاقیہ اسکور ہو جانے والی سنچری کی تعریفیں ہو رہی ہوتی ہیں ۔ یہ سب کیا کم تھا کہ اس کھیل کو کھیلنے کے لئے ’’بگ تھری‘‘ کی صورت میں بڑی اور چھوٹی ٹیموں میں تقسیم کر دیا گیا اور یوں تقسیم در تقسیم کا کھیل دھڑلے سے جاری ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟؟؟ کب ہوا ؟؟؟ کیا ہوا کہ کرکٹ میں کھیل کے معیار کو زیادہ سے زیادہ اور تیز رفتار رن بنانے سے جوڑ دیا گیا؟؟ اس کھیل کی شروعات کرکٹ کو پچاس اور پھر بیس اوورز تک محدود کرنے سے ہوتی ہے ، پھر دن میں کھیلی جانے والی کرکٹ کو رات میں کھیلا جانے لگا، پھر دن اور رات کی کرکٹ کو یکجا کر کے ’’ڈے اینڈ نائٹ‘‘کرکٹ کا آغاز کر دیا گیا ۔
اس تبدیلی کا جواز ۔۔۔ کھیل کو پانچ دنوں تک جاری رہنے اور بے نتیجہ اختتام کو کم وقت میں نتیجہ خیز بنانا ۔ یہ سہی ہے کہ اس جدت سے کھیل تو نتیجہ خیز بن گیا لیکن اس سے کرکٹ کو کچھ فائدہ ہوا یا نہیں سٹے بازوں کی ضرور چاندی ہو گئی ، جتنی تیزی سے رن بننے لگے اتنی ہی تیزی سے دولت کے انبار لگنے لگے۔ اور محدود اوورز، محدود وقت ، محدود قوانین اور کئی دیگر پابندیوں کے نفاذ نے کچھ نیا کیا یا نہیں لیکن کرکٹ کے فروغ کے امکانات کو ضرور محدود کر دیا۔
امپائر کے فیصلوں کو شفاف بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا گیا ۔ ٹیموں کو یہ اختیار دیا گیا کہ اگر ان کو امپائر کے فیصلے پر اعتراض ہو تو وہ گراؤنڈ میں موجود تھرڈ امپائر سے اپیل کر سکیں۔ اس سہولت کو ابتداً تو بہت پذیرائی ملی لیکن رفتہ رفتہ اس پر بھی انگلیاں اٹھنے لگیں ۔ کمپیوٹر پروگرام کی خامی، کیمروں کے اینگل، بال کی موومنٹ ، اس کی اونچائی اور پچ کے ایک خاص مقام پر گرنے اور گھومنے کو جانچنے کے پروگرام کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ۔ شائقین کا ماننا ہے کہ اس تمام معاملے میں سٹےبازوں کی مداخلت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس تمام صورت حال نے کرکٹ کے کھیل کو بجائے خود ایک کھیل بنا دیا اور شائقین کرکٹ کی دلچسپی اور اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ یہی وجہ ہے کہ کرکٹ کے آسمان پر چمکنے والے ستارے اب اس کے مستقبل کے بارے میں فکر مند اور کسی حد تک مایوس نظر آرہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ٹیسٹ کرکٹ زوال پذیر ہوتے ہوتے سرے سے ہی ختم ہوجائے اور اس کے بچانے کا وقت ہاتھ سے نکل جائے، ارباب اختیار کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ اس کھیل کو قائم رکھنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس سے سٹے بازی کے عفریت کو ختم کرکے شفافیت لانا ہو گی۔ یہ سب ہو گا تو یہ کھیل شائقین میں زیادہ مقبولیت حاصل کرسکتا ہے ورنہ حالات یہی رہے تو اگلے دس سال بعد نا صرف ٹیسٹ بلکہ آہستہ آہستہ ایک روزہ کرکٹ بھی ختم ہوجائے گی اور صرف ٹی ٹوئنٹی باقی رہ جائے یا شاید یہ بھی مزید سکڑ کر آدھی رہ جائے ٹین ٹین ۔۔۔ اور پھر ٹائیں ٹائیں فش !