ہم پاکستانیوں کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ اپنی ہی پیدا کردہ مصیبت کے ٹل جانے پر خوشی کے ایسے شادیانے بجاتے ہیں کہ جیسے سب کچھ ہمیشہ کے لئے ٹھیک ہو گیا ہو اور اب مصیبت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گی لیکن اگلے ہی لمحے ہم اپنے ہاتھوں سے نئی مصیبت کے بُت تراشنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کو بھی زوالفقار علی بھٹو کی آمریت سے نجات قرار دیا گیا تھا مگر پھر اگلے گیارہ سال ضیاء الحق سے جان چھڑانا مشکل ہو گیا تھا۔ خُدا خُدا کر کے اُس سے جان چھوٹی تو تب بھی قوم نے شکر ادا کیا کہ دیر آید درُست آید مگر جن نادیدہ قوتوں کو سیاسی حکومتیں راس نہیں آتیں اُنہوں نے نئے جال بُن لیے۔
بھٹو کی نیشنلائزیشن اور ضیاء الحق کی جہاد پالیسی کے اثرات ابھی زرا کم نہ ہونے پائے تھے کہ جنرل پرویز مشرف پرائیوٹائزیشن کی سوچ کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہو گئے۔ اُس وقت بھی ہم نے انہیں اپنی ہر مشکل سے نجات کا زریعہ سمجھا اور خُوب آئو بھگت کی۔ پچھلی مصیبتوں سے چھٹکارے پر خوشیوں کے دیپ جلائے مگر پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پرویز مشرف خود ”مصیبت” بن گئے۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ازخود نوٹسز کو بھی حکمرانوں کی پیدا کردہ مُصیبتوں کے خلاف ڈھال سمجھا گیا مگر وقت نے انصاف کے لئے لڑی جانے والی اس جنگ کو ”ٹوپی ڈراما” ثابت کر دیا حالاں کہ پوری قوم نے عدلیہ بحالیتحریک میں خود کو جھونک دیا تھا۔ اس کے باوجود کہ عدلیہ کا ”نظریہ ضرورت” ہمیشہ قوم کے لئے بھاری ثابت ہوا مگر پھر بھی ماضی کو بھلا کر جدوجہد کی نئی تاریخ رقم کرنے کا کڑوا گھونٹ پیا گیا۔ لیکن ہوا کیا! عدلیہ کی بحالی کے بعد بھی لوگ آج بھی انصاف سے محروم ہیں۔
بقول ظہیر کاشمیری مرحوم
جس دیوار کو خون پلا کر
سر سے اُونچا کر گئے لوگ
اُس دیوار کے نیچے آ کر
اک اک کر کے مر گئے لوگ
پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد دھرنے کو ملک وقوم پر مُصیبت بنے حُکمرانوں کا دھڑن تختہ سمجھا گیا۔ اس دھرنے سے حکومت سے جان تو نہ چھوٹی مگر دھرنوں کی ایسی سیاست کا آغاز ہو گیا کہ جس سے اب چھٹکارہ مشکل ہی نظر آتا ہے۔ آج مشکل میں پھنسا ہر شخص دھرنے کو ہی مسئلے کا حل سمجھتا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والا تحریک ختم نبوتؐ کا دھرنا ہو یا لاہور کے مال روڈ کی بندش ہزاروں لوگ اس مُصیبت سے دوچار رہے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ یقین کی حد تک یہ سمجھتے ہیں کہ مُصیبت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اس کے آنے اور جانے کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ انسانی کوشش زیادہ سے زیادہ اس کے نقصانات کم کر سکتی ہے مگر مکمل چھٹکارہ ممکن نہیں۔ ہمارے خیال میں ایسا سوچ صرف خود احتسابی سے گریزاں افراد کا ہی ہو سکتا ہے، کیوں کہ جو لوگ اور قومیں اپنا احتساب کرنے کی عادی ہوتی ہیں اُن کے لئے کوئی بھی مُصیبت کسی امتحان سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ترقی یافتہ قومیں تو مُصیبت بننے والی کسی معمولی سی غفلت کو بھی نظر انداز کرنے کو غلطی سمجھتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں احمقانہ فیصلوں پر بھی کسی قسم کی شرمندگی کا کوئی احساس تک نہیں ہوتا۔ اسی لئے تو ہماری مصیبتیں کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ دھرنا ہو یا احتجاج کے دوران سڑک بند کرنا، یہ طے ہے کہ مصیبتوں کے حل کا ایسا کوئی بھی طریقہ کسی طور بھی درست نہیں۔ راستے بند کر کے حکمرانوں کے مردہ ضمیر کو جگانے کی ایسی کوششیں زیادہ تر بے سود ہی رہی ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ دھرنے دے کر حکمرانوں کی بے حسی کو للکارا جا سکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی یا خوش فہمی ہی ہو سکتی ہے کیوں کہ کام تو ہمیشہ وہ ہاتھ دکھاتے ہیں جو نظر نہیں آتے اور دراصل یہی وہ ہاتھ ہیں جو کبھی کسی کی پشت پر اور کبھی کسی کی گردن پر ہوتے ہیں۔
بقول شاعر
یہ جو پیچھے سے وار کرتے ہیں
ہم پہ ظاہر اپنا کردار کرتے ہیں
اُن سے کہتے ہیں جاں نثار اُن پر
پھر اُن کی جاں کا حصار کرتے ہیں