پاکستان میں میچ کبھی بھی دو سیاسی جماعتوں کے درمیان نہیں رہا۔ پاکستان کیا پوری دنیا میں یہی پریکٹس ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سٹیک ہولڈرز اپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اپنی اپنی پسند کے گھوڑوں پر انویسٹمنٹ کرتے ہیں۔ کہیں یہ سٹیک ہولڈرز کارپوریٹ ہائوسز ہوتے ہیں ، کہیں انٹرنیشنل برادری تو کہیں ملٹری اور دوسرے حساس ادارے ۔ ان تمام سٹیک ہولڈرز کی انوسیٹمنٹ کس حد تک درست ہے یہ اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے مگر اس تحریر کے موضوع کی مناسبت سے زیادہ اہم حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی سوالات کے باوجود دو ٹیموں کے میچ میں تیسری قوت کے کردار کی پریکٹیس صرف پاکستان نہیں بلکہ اعلیٰ اقدار کے مالک جمہوری معاشروں میں بھی پائی جاتی ہے۔
کیا کسی کو اس میں کوئی شک ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے انتخابات کا نتیجہ بھارتی عوام نہیں بلکہ بمبئی کا کارپوریٹ سیکٹر طے کرتا ہے؟ نریندرامودی جیسا انتہا پسند شخص صرف اسی وجہ سے بھارت کا وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوا کیونکہ گجرات ماڈل کے زریعے اس نے کارپوریٹ سیکٹر کو کنونس کیا کہ کارپوریٹ سیکٹر کے لئے اس سے بہتر چوائس کوئی نہیں ۔ اس کے بعد مودی کو وزیراعظم بنانے کے لئے بھارتی میڈیا پر اربوں روپے سے “اب کی بار مودی سرکار” کے نام سے بھرپور کمپین چلائی گئی۔ بی جے پی اور اتحادیوں کے امیدواروں میں الیکشن کمپین کے لئے اربوں روپے تقسیم کئے گئے بالکل ویسے ہی جیسے 1990 میں اسٹیبلشمنٹ نے آئی جے آئی کے امیدواروں میں پیسے تقسیم کئے۔ تمام جماعتوں کے وننگ امیدواروں کو پیسے اور بلیک میلنگ سے بی جے پی میں شامل کروایا گیا بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان میں نامعلوم نمبرز سے فون کالز کے زریعے لوگوں کی سیاسی وفاداریوں کو بدلا جاتا رہا۔
امریکی انتخابات کی طویل تاریخ میں اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کےلئے یہودی سرمایہ کاروں کا کردار ڈھکا چھپا نہیں۔ یہاں تک کہ عالمی امور کے ماہرایک طبقے کا یہ بھی خیال ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ایک بھی امریکی صدر ایسا نہیں آیا جسے یہودی سرمایہ کاروں کی حمایت حاصل نہ ہو۔ حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کے شواہد بھی اب واضح ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکشن جتوانے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ایک دھڑے کا کردار بھی سامنے آ چکا ہے۔
اگر پاکستانی سیاست کی بات کی جائے تو یہاں دوسرے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ساتھ فوج کا کردار سب سے اہم رہا ہے۔ جس طرح معاشرے کے دوسرے تمام سٹیک ہولڈرز اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے تمام ممکن کوشش کرتے ہیں بالکل ویسے ہی فوج کو بھی سیکیورٹی معاملات میں بطور سٹیک ہولڈر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مفادات کے تحفظ کے لئے محدود اور آئینی کردار ادا کرے۔
اگر فوج کی موجودہ اور ماضی قریب کی لیڈرشپ کا مسئلہ اقتدار ہوتا تو پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن کے دور حکومت میں مجموعی طور پر تین لانگ مارچ اور ایک لاک ڈائون کے دوران متعدد بار ایسے لمحے آئے جب فوج آسانی سے اقتدار پر قبضہ کر سکتی تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ ن کے سینیٹ چیئرمین بننے کا راستہ روکا گیا اور اب مسلم لیگ ن کو اگلے الیکشن میں محدود کرنے کے لئے الیکٹیبلز کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا اشارہ بھی کیا جا رہا ہے مگر یہ نقطہ سمجھنے کے قابل ہے کہ جب حکمران ڈان لیکس جیسے بلنڈر کے ذریعے کسی ایک ادارے کو مفلوج اور بدنام کرنے کی کوشش کریں گے، کلبھوشن یادیو جیسے حساس معاملے کو اس ادارے کا پراپیگنڈا قرار دیا جائے گا، اپنی نااہلی اور کرپشن کے ناکام دفاع کی ذمہ داری اداروں پر ڈالی جائے گی، سینیٹ کے انتخابات جیت کر آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ اور فوج کو پنجاب پولیس بنانے کی کوشش کی جائے گی، کرپشن کیسز میں ممکنہ سزا کو نواز شریف بمقابلہ فوج ثابت کرنے کے لئے ممبئی ٹیکس کا الزام ریاست اور ریاستی اداروں پر لگایا جائے گا تو جواب میں وہ ادارہ بھی اپنی قانونی اور اخلاقی طاقت کو بروئے کار لائے گا جسے آپ پولیٹیکل انجئینرنگ کا نام دے کر “غیر اخلاقی” تو کہہ سکتے ہیں مگر “غیر قانونی” ہرگز نہیں۔