کوئٹہ ;بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترمینگل نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اورپی ٹی آئی نے بات چیت کیلئے دعوت دی ہیں،خودحکومت بنائیں یاکسی کےساتھ ملکرمقصدعوام کی خدمت ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جوبلوچستان کے مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائے اس کےساتھ حکومت بنانے کیلئے تیارہیں۔کوئٹہ میں پریس کانفرنس
کے دوران سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے ساحل کی ملکیت بلوچستان کے عوام کوملنی چاہئے، کوشش ہے اتحادیوں کےساتھ مل کرحکومت بنائیں،بلوچستان میں کینسرہسپتال بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ بی این پی کو الیکشن میں کامیاب کرانے پربلوچستان کے عوام کامشکورہوں،الیکشن میں ہمارے امیدواروں کی کامیابی کو ہار میں تبدیل کردیا گیا،انہوں نے الزام عائد کیاکہ الیکشن کے نتائج کو 24 سے 72 گھنٹے تک لیٹ کیا گیا،این اے 264،271،272سمیت کئی حلقوں میں ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ ایک کمیشن بنایاجائے جو الیکشن میں ہوئی زیادتیوں کو دیکھے،بلوچستان عوامی پارٹی نے ہمیں حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے،خورشید شاہ اور جہانگیرترین نے بات چیت کی دعوت دی ہے،ان کا کہناتھا کہ بات چیت کے دروازے کسی پر بند نہیں کئے،جوبلوچستان کے مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائے اس کےساتھ حکومت بنانے کیلئے تیارہیں۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل سمیت دیگر جماعتوں پر مشتمل اتحاد وفاق میں حکومت سازی سے متعلق اہم فیصلے کا اعلان آج کرے گا۔اسلام آباد میں گزشتہ روز سیاسی جماعتوں کے سربراہان و نمائندگان کا اہم اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ چیئرمین تحریک انصاف
عمران خان کو آسانی سے وزیراعظم نہیں بننے دیں گے اور پنجاب کے علاوہ وفاق میں بھی حکومت بنانے کی کوشش کریں گے۔ذرائع کے مطابق سیاسی رہنماوں نے طے کیا کہ وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں پر امیدوار کھڑے کیے جائیں گے اور مذکورہ عہدوں پر متفقہ امیدوار لانے پر بھی اتفاق کیا گیا جب کہ مشترکہ امیدواروں کے لیے اے پی سی میں شامل دیگر جماعتوں سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مرکز میں حکومت سازی کے لیے کوشش کی تجویز پر پیپلز پارٹی نے فوری رضا مندی ظاہر نہیں کی تاہم پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت سازی کے فیصلے کا مینڈیٹ مرکزی قیادت کے پاس ہے۔ اجلاس میں شریک ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے قومی اسمبلی میں حلف اٹھانے کے بارے میں تحفظات ظاہر کیے اور کہا کہ اس صورت میں پارلیمان سے باہر احتجاج کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ مولانا فضل الرحمان نے اصرار کیا کہ قومی اسمبلی جانے کی صورت میں پارلیمنٹ کے باہر بھی سخت احتجاج کیا جائے جس پر تمام جماعتوں نے اتفاق رائے کیا۔ اجلاس کے دوران یہ بھی طے پایا کہ پارلیمان کے اندر اور باہر اسخت احتجاج کے لیے مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جائے گی، اس دوران احتجاج کے لیے مختلف شہروں کی نشان دہی بھی کی گئی۔