پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان نے اپنے کئی ساتھیوں کو فارغ کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ وننگ ٹیم تھی ہی نہیں۔ اُن کا صرف ایک ہی کام تھا، گزشتہ حکومتوں پر تنقید کرنا۔ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا۔ وزیراعظم کسی کو آپ کی نیت پر شک و شبہ نہیں ہے مگر آپ کی صلاحیت اور مردم شناسی پر سوالیہ نشان ہیں۔ خدا جانے کس نے حکومت کو مشورہ دیا ہے یا یہ اُس کا ہی جذباتی عمل ہے کہ غریبوں کے گھرا ور دکانیں مسمار کردی گئی ہیں۔ غریب کی آہ آسمان تک پہنچتی ہے۔ کیا پڑھا نہیں کہ حضرت عمرؓ، حضرت امیر معاویہؓ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، خلیفہ ہارون الرشید کس طرح عوام کی ضروریات و آرام کا خیال رکھتے تھے۔ حکومت نے ایئرپورٹ کے راستے میں لاتعداد دکانیں، شادی ہال مسمار کرا دیئے، اُن کو کوئی نعم البدل نہیں دیا گیا۔ اب یہ پورا علاقہ کھنڈرات کی طرح پڑا ہے۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ سی ڈی اے سے کہتی کہ اُن ناجائز تعمیرات کو رجسٹر کرلے، اُن پرکرایہ لگا دے، لیز پر دیتی رہے، ملکیت حکومت کی رہتی، ہزاروں لوگوں کا رزق جاری رہتا۔ مالک تو کہیں اور کچھ نہ کچھ کاروبار کر لے گا، غریب تو فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا۔ اِسی طرح کراچی میں اندھا دھند توڑ پھوڑ کی گئی، جس سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔ بھوکے، فاقہ کشوں کی آہیں بڑے بڑے مضبوط ستونوں کو گرادیتی ہیں۔ مزید یہ کہ صبح سے شام تک اکثر وزیر پچھلی حکومتوں اور حکمرانوں کو گالیاں دیتے رہتے ہیں۔ اُن کے لئے نیب, ایف آئی اے وغیرہ ادارے کافی تھے، آپ خاموشی اور تندہی سے اپنے تعمیری کام میں لگے رہتے۔ عوام نے پرانے حکمرانوں کو ٹھکرا دیا تھا۔ عدلیہ نے اُن کو جیل بھیج دیا تھا۔ سابق وزیرِ اطلاعات نے کبھی حکومت کی کارکردگی یا مثبت اقدامات کا ذکر نہیں کیا، صبح سے شام تک دوسروں کے خلاف بیانات دیتے رہے۔
وزیراعظم آپ نے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو تعینات کر کے اچھا اقدام کیا ہے لیکن ایک کمزور ٹیم میں ایک ٹاپ کلاس کھلاڑی ڈالنے سے ٹیم کی حالت نہیں بدلتی۔ ہمارے سامنے ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم اور پاکستان کی ہاکی ٹیم کی مثال موجود ہے۔ جب تک پوری ٹیم ٹھیک نہ ہو، دو چار کھلاڑی زیرو ہوتے ہیں۔ ہماری کرکٹ ٹیم کا حال ابھی آسٹریلیا کے خلاف آپ نے دیکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ٹیم اور حکومت کی کارکردگی کا انحصار کپتان پر ہوتا ہے۔ آپ تجربے کرتے جائیں، کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔ حکومت نے سیاستدانوں کے علاوہ عوام کو اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ فواد چوہدری کو نئے صوبوں کا وزیر بنا دیں، ڈاکٹر عمر سیف کو مشیر سائنس وٹیکنالوجی لگا دیں۔ کم از کم سائنس وٹیکنالوجی کا نظام تباہ نہ ہوگا۔ یہی حال گڈگورننس کا ہے۔ اگر یہ خود ساختہ ماہرین اِس وقت ملکی نظام بہتر نہ بنا سکے تو یہ ناکامی حکومت کے حصے میں لکھی جائے گی۔ حکومت کے ایک دستِ راست شاہ فرمان صدارتی نظام کی ترغیب دے رہے ہیں، جنرل ضیاءالحق اور مشرف نے کیا اچھا نظام پیچھے چھوڑا ہے؟ ملک کو تباہ کر گئے۔
محترم وزیراعظم صاحب !اگر آپ کو ملک کو ٹھیک کرنا اور بچانا ہے تو ٹیکنوکریٹس کو شامل کریں، اُن کی عزّت وہمت افزائی کریں، وہ آپ کے لئے جان دے دیں گے۔ میں یہ اِس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے سات سال میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا، معجزہ کر دکھایا، یہی پاکستانی تھے میرے ساتھی، دوست وبھائی تھے۔ لوگ ہمیشہ یہی سوال کرتے تھے کہ آپ نے نہلوں سے دہلوں کا کام کیسے لے لیا؟میں نے کہا وہ دہلے تھے، میں نے جو تھوڑی سی دھول جم گئی تھی، وہ دور کردی تو وہ روشن ہو گئے۔ اِس ملک میں نہ اُس جیسی ٹیم پہلے تھی اور نہ اُس جیسی ٹیم کبھی بنے گی۔ ایسی چیزیں سربراہ کی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
سب کو علم ہے کہ کسی ملک کی ترقی کا راز اُسکی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی کی ترقی میں ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی کا یہی راز ہے۔ تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے بغیر آپ کسی افریقی پسماندہ ملک کی طرح ہیں۔
وزیراعظم صاحب! نہایت افسوس ہوتا ہے کہ آپ نے آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی، کرکٹ کی وجہ سے پوری دنیا دیکھی اور اعلیٰ لوگوں میں اُٹھے بیٹھے، شادی کی وجہ سے لندن کی اعلیٰ ترین سوسائٹی میں گھومے پھرے۔ پھر بھی آپ کی حکومت وجود میں آتے ہی پرانی کاروں، بھینسوں کی فروخت میں لگ گئی۔ وزیراعظم ہائوس کا ستیاناس کر دیا گیا۔ خبریں آرہی ہیں کہ اُس کا فرنیچر بیچا جا رہا ہے، انسٹیٹیوٹ بنایا جا رہا ہے، کسی نے یہ نہیں سوچا کہ یہ سرکاری ملکیت ہے، کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ یہ وزیراعظم کی قیام گاہ ہے اگر اُس کو استعمال نہیں کرنا تو بند کر دیں۔ یہ جونیجو صاحب نے بنوائی تھی۔ دوسرا وزیراعظم آئے گا تو کہاں رہے گا۔ اُس میں غیر ملکی ممتاز مہمانوں کو عشائیہ دیا جاتا ہے، وہاں وزیراعظم کا دفتر ہے، اُس کا سیکریٹریٹ ہے۔ میں لاتعداد مرتبہ وہاں گیا ہوں۔ خدا کے لئے اُس کو تباہ نہ کیا جائے، یہ ریڈ زون ہے، اُس کو انسٹیٹیوٹ بنایا گیا تو ایک فساد وجھگڑے کا اکھاڑا بننے کا خطرہ ہے۔ اگر کوئی انسٹیٹیوٹ بنانا ہے تو قائداعظم یونیورسٹی میں بہت زمین خالی پڑی ہے، وہاں ایک بلڈنگ تعمیر کرا دیں، اُس میں نوجوان تعلیم حاصل کر کے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔
ایک اہم تجویز جو میں موجودہ حکومت اورخاص طور پر وزیراعظم کی خدمت میں خلوصِ دل سے پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اپنی تمام توانائیاں اور صلاحیتیں سابق حکمرانوں پر تنقید کرنے میں ضائع کرنے کے بجائے نئے منصوبے بنانے، مہنگائی پر قابو پانے، تعلیم کو عام کرنے، روپیہ کی قدر میں اضافہ کرنے، نئی اور جدید درسگاہیں قائم کرنے اور خصوصی طور پر اُن غلطیوں کا اعادہ نہ کرنے میں استعمال کریں جو سابقہ حکمرانوں نے کی ہیں اور یہ یاد رکھیں کہ حزبِ اختلاف سے محاذ آرائی میں آپ کا وقت ضائع ہو رہا ہے جبکہ آپ کے وقت کی اہمیت اپوزیشن کے مقابلے زیادہ ہے کیونکہ آپ کو ایک مقررہ وقت میں وہ مسائل حل کرنا ہیں جن کے حل کا آپ نے عوام سے وعدہ کر کے ووٹ حاصل کئے ہیں جبکہ اپوزیشن پر عوام کے مسائل حل کرنے کی اتنی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لائے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے۔