پرانے زمانے کا انسان مسائل کے تصفیہ کیلئے مصلح جتھے بنا کر بذور طاقت فیصلے کرواتا تھا.جس کا جتھہ مضبوط ہوتا تھا اسـکی جیت ہو جاتی تھی.زمانہ بدلا اور انسان نے مسائل یا تنازعات کے حل کیلئے عدالتوں کا نظام وضع کیا. لیکن ساتھ ہی عدالتوں پر اثر انداز ہونے کیلئے دباؤ اور پراپیگینڈے کا سہارا لینا شروع کر دیا. یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں پراپیگینڈے اور اثرو وسوخ کی طاقت سے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کی جاتی ہیں. برصضیر پاک و ہند میں عدالتوں کے زریعے مخالفین کا استحصال یا انہیں تنگ کرنے کا طریقہ کار بے حد پرانا ہے.
خاص کر ہمارے وطن میں بسنے والے زیادہ تر افراد کی طبیعت میں ہی مقدمہ بازی ہے. معمولی سے معمولی بات کو لیکر فریقین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کورٹ کچہریوں کا رخ کرتے ہیں. جس کا مقصد صرف اور صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہوتا ہے.عموما ہمارے معاشرے کی نفسیات کو مد نظر رکھا جائے تو کوئی بھی شخص کسی بھی مقدمے میں ایک بار کورٹ کچہری کا چکر لگا لے تو پھر اسے آس پاس کے لوگ مجرم ہی گردانتے ہیں. یعنی بھلے ہی ملزم بے گناہ کیوں ہی نہ ہو لیکن ایک بار اس پر الزام لگ جائے تو زیادہ تر اجتماعی نفسیات اس کو مجرم ہی گردانتی ہے. رہی سہی کثر گلا سڑا قانونی نظام اور عدالتیں پوری کر دیتے ہیں جہاں ملزم کی تین تین نسلیں انصاف کے حصول کیلئے دھکے کھاتی رہتی ہیں . لیکن انصاف تو دور کی بات عدالتوں سے اس کو ریلیف تک نہیں ملتا.
البتہ اگر کسی بڑے یا بااثر آدمی کا مقدمہ عدالتوں میں پیش ہو جائے تو نہ صرف اس کو فوری ریلیف بھی مہیا ہو جاتا ہے بلکہ مقدمہ کا فیصلہ بھی فورا کے فورا ہو جاتا ہے.اس ضمن میں مصطفی کانجو ایان علی اور پرویز مشرف کے کیسز کی مثالیں سب کے سامنے ہیں جہاں ان مجرموں کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا لیکن نہ صرف ان مجرموں کو فوری ضمانتیں بھی میسر آ گئیں بلکہ کئی حضرات تو قانون کے شکنجے سے باآسانی بچ نکلے. زین قتل کیس کی سماعت کے دوران جب مقتول زین کی والدہ نے عدالت عظمی کے روبرو یہ بیان دیا تھا کہ وہ بیٹیوں کے ہوتے ہوئے بااثر ملزمان کے خلاف اپنے اکلوتے مقتول بیٹے کا کیس مزید آگے.نہیں لڑ سکتی تو اس دن اندازہ ہو گیا تھا کہ قانون عدالتیں اور پولیس صرف اور صرف طاقتور کے گھر کی باندی ہیں. مصطفی کانجو آزاد فضاؤں میں سانس لیتا آج بھی اس معاشرے اور اس معاشرے کے عدالتی و قانونی نظام پر لگنے والا ایک زناٹے دار تھپڑ ہے . یہی جرم اگر کسی سبزی فروش کسی عام دوکاندار یا عام سے ملازمت پیشہ فرد سے سرزد ہوا ہوتا تو یقینا عام آدمی ہونے کی بنا پر نہ صرف اس پر فرد جرم ثابت ہو چکی ہوتی بلکہ اب تک اس کو سولی پر بھی چڑھایا جا چکا ہوتا. اسی طرح ایان علی یا پرویز مشرف کی جگہ کوئی عام افراد ہوتے تو آج سلاخوں کے پیچھے زندگی بسر کر رہے ہوتے. لیکن چونکہ یہ تمام مجرم بااثر اور طاقتور تھے اس لیئے پیسے اور تعلقات کے دم پر قانون کا بلاتکار کرنے کے بعد آرام سکون سے زندگی کی مسرتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور ایسے لاتعداد ان گنت مجرم جو کہ بااثر بھی ہیں اورطاقتور بھی ہیں سب عدالتوں اور قانون کا روزانہ کی بنیاد پر بلاتکار کرتے ہوئے جرائم کی سیاہی کو معاشرے کے چہرے پر ملتے رہتے ہیں.ریاست عدلیہ اور قانون نہ تو ان مجرمان کو چھونے کا سوچتے ہیں اور نہ ہی شرم کے مارے چلو بھر پانی میں ڈوبنے کا تہیہ کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس انتہائی ڈھٹائی سے کمزور یا عام آدمی پر قانون طاقت اور رتبے کی دھاک جما کر اسے سزا اور جزا کے تصور سے ڈرایا جاتا ہے.
یہی نہیں بلکہ عملی طور پر کئی عام آدمیوں کو سزا دے کر عدلیہ اور قانون اپنی شکست خوردہ انا کی تسکین بھی کرتے پائے جاتے ہیں. کسی بھی بڑے آدمی کا مقدمہ ہو یا پھر کسی دہشت گرد کا مقدمہ یا تو جج حضرات چھٹی لیکر کیس کو نہ سننے میں ہی عافیت گردانتے ہیں یا پھر مجرموں کو ریلیف یا کلین چٹ دے کر کیس ختم کر کے جان چھڑوا لیتے ہیں.یا پھر ملکی مفاد میں فیصلوں اور انکوائریوں کو “محفوظ” کر لیا جاتا ہے.سانحہ بنگال سے متعلق حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ہو یا پھر ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ ان کو دبا کر فائلیں بنا لیا جاتا ہے.اور لاپتہ افراد تو مقدمات کے ساتھ ساتھ خود بھی فائلیں بن جاتے ہیں.پانامہ کیس جو کہ مکمل طور پر سیاسی لڑائی پر مبنی تھا اس کو سنننے کیلئے تو معزز عدلیہ کے پاس وقت میسر آ گیا لیکن ہزارہا کیسز جن کی فائلیں رجسٹرار کے دفتر میں دبی دبی دیمک زدہ ہو گئیں ان کے اوراق کو کسی نے پڑھنے کی کوشش بھی نہ کی.اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اس کیس کا فیصلہ بھی محفوظ کر لیا گیا. یقینا اس فیصلے کو “محفوظ” کرنے کی کئی تاویلیں پیش کر دی جائیں گی اور مبصرین ان پر سالوں تجزیات بھی کرتے رہیں گے اور سیاسی حریف ایک دوسرے کو نیچا بھی دکھاتے رہیں گے .یوں ہمیشہ کی طرح کچھ ہی عرصے میں سب کچھ بھلا کر پھر سے ایک نیا تماشہ بپا کر دیا جائے گا.
ایسے میں کون مقتول زین کی ماں کی آنکھ کے آنسو خشک کرنے کی ہمت کرے گا اور معزز عدلیہ کے کس جج میں اتنی ہمت ہو گی کہ وہ مقتول زین کی والدہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بات کہہ سکے کہ ہم نے انصاف کے تمام تقاضے پورے کر دئیے .کون ایان علی کیس کے مقتول کسٹم انسپکٹر کے گھر جا کر اس کی بیوی یا ننھے بچے کو دلاسہ دیتے ہوئے یہ کہنے کی ہمت رکھتا ہے کہ فکر نہ کرو قانون موجود ہے عدالتیں موجود ہیں. کون مشرف کے ہاتھوں مارے جانے والے یا گمشدہ ہونے والے سینکڑوں افراد کے ورثا سے یہ کہنے کی ہمت رکھتا ہے کہ معاشرے میں عدالتیں اور قانون مجرموں کو سزا دینے کیلئے کام کر رہے ہیں.؟ یہ تمام مجرم ہمارے معاشرے کے قانونی نظام کے کھوکھلے ہونے اور عدلیہ کے بے بس ہونے کا واضح ثبوت ہیں.لیکن ہماری اعلی عدالتوں کے معزز جج صاحبان کا سارا زور اخلاقیات و مذہب کی ترویج یا مزہب و عدالت کی توہین کی جانب توجہ دلوانےاور اس کا مرتکب کمزور افراد کو سزا دلانے تک محدود رہتا ہے.
کیا زین کے قاتل کا کھلے عام گھومنا اور قانون کے شکنجے سے باآسانی نکل جانا توہین انسانیت نہیں ہے کیا یہ کسی اخلاقیات کسی قانون یا کسی مزہب کی دی ہوئی تعلیمات کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا ایان علی کا آزادانہ گھومنا اور اس مقدمے کے اہم گواہ کا قتل کسی قسم کی توہین کے زمرے میں نہیں آتا. وطن عزیز کے قانون کا بلاتکار کرنے والے اور سینکڑوں افراد کو قتل اور گمشدہ کرنے والے مشرف کا قانون کے شکنجے سے نکل جانا توہین انسانیت توہین قانون نہیں ہے؟ بااثر افراد کو قانون کی پکڑ میں لانے کے بجائے اگر قانون کا اطلاق صرف اور صرف کمزور پر کیا جائے تو اس سے بڑی توہین انسانیت کیا ہو سکتی ہے؟ اس وطن میں ان گنت ایسی مائیں ہیں جنہوں نے اپنا زین کسی نہ کسی طاقتور مصطفی کانجو جیسے بھیڑیے کے ہاتھوں کھویا ہے کئی بیوائیں ہیں جو ایان علی جیسی بااثر مجرمہ کے گناہوں کی ناکردہ سزا بیوگی کی صورت میں بھگت رہی ہیں اور لاتعداد یتیم اور لاوارث بچے ہیں جو مشرف کے دامن پر اپنوں کے خون کے دھبے بے بسی سے دیکھ رہے ہیں.یہ لاتعداد عام اور بے بس آدمی معزز عدلیہ قانون اور ریاستی اداروں سے بے بس نظروں سے ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ کیا انصاف کی عدم فراہمی اور مجرموں کا باآسانی قانون کو قدموں تلے روند ڈالنا توہین نہیں ہے؟ اور اس توہین انسانیت کے مقدمے کی سماعت عدلیہ کب شروع کرے گی؟