شاید میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں تھا، جب پہلی بار اسکول جاتے وقت میری نظر ایک پاگل سی لڑکی پر پڑی. اس کے الجھے بالوں میں مٹی کے ذرات نمایاں نظر آ رہے تھے، ہاتھوں میں موجود گندے کپڑوں اور دھاگے کی نلکیوں کا ایک ملگجہ سا ڈھیر, مجھے تعفن سے بھرا لگا تو فورا آنکھیں جھکالیں. نظر نیچے جاتے ہی اس کے ننگے مگر انتہائی گندے اور کبھی جوتی نہ پہننے کے باعث بے ڈھنگے ہوئے پائوں دیکھتے ہی میں نے ایک جھرجھری سی لی اور دوبارہ اسے نہ دیکھا۔ اس واقعہ کے بعد اکثر وہ پاگل لڑکی مجھے کہیں نہ کہیں نظر آ جاتی اور میں اسے نہ دیکھنے کی بھرپور کوشش کرتا لیکن پھر بھی نظر ضرور پڑ جاتی۔ کبھی کبھار تو وہ اتنے قریب سے گزرتی کہ میں ڈر جاتا تھا کہ کہیں یہ اوروں کی طرح میرا بھی ہاتھ پکڑ کر مجھ سے پیسے یا کوئی چیز مانگنے نہ لگ جائے۔ وہ اکثر میرے اسکول کے سینئیر طلباء اور راہگیروں سے پیسوں کا مطالبہ کیا کرتی تھی۔ کئی بار وہ اس کا خوب مذاق بھی اڑاتے تھے اور اسے تنگ بھی کرتے تھے۔ پھر ایک دن وہ پاگل لڑکی گم ہوگئی۔ محلے داروں نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ مساجد میں بھی اعلانات کرائے لیکن وہ کہیں نہ ملی۔ تقریباً کوئی ایک یا دو ہفتے بعد وہ پاگل لڑکی پھر سے مجھے نظر آئی لیکن اب وہ پاگل لڑکی پہلے جیسی نہیں تھی۔ اب وہ اٹھکیلیاں نہیں کررہی تھی، نہ ہنس رہی تھی۔ ہاتھ بھی اس کے خالی تھے۔ ہاں البتہ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سے وحشت تھی۔ ایک انجانا سا خوف تھا جس کا مجھے اس وقت بالکل علم نہیں تھا۔ اسکول سے واپس گھر آیا تو ایک خاتون بڑے رازدارانہ انداز میں میری والدہ سے بات کر رہی تھی کہ اللہ ایسے لوگوں پر عذاب بھی تو نہیں نازل کرتا، کم بختوں نے پاگل کو بھی نہ بخشا۔ مجھے بات سمجھ نہ آئی اور میں نے تفتیش بھی نہیں کی لیکن کچھ ماہ بعد اس لڑکی کے پھولے ہوئے پیٹ، پورے محلے کی نظروں اور باتوں نے سب سمجھا دیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد سے اب تک وہ پاگل لڑکی پھر گم ہوگئی اور مجھے کہیں نظر نہیں آئی۔ اس بار اسے کسی نے نہیں ڈھونڈا، نہ مساجد میں اعلانات کرائے گئے، جانے کہاں چلی گئی وہ۔ آج بھی اکثر کبھی کوئی فقیرنی یا پاگل عورت دیکھوں تو اس کی یاد ضرور آجاتی ہے۔ آج میں نے کوئی فقیرنی دیکھی نہ کوئی پگلی بلکہ آج سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے وہ پاگل لڑکی مجھے یاد آئی اور میں ایک بار پھر جھرجھری لے کر رہ گیا۔ میشا شفیع نے علی ظفر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تو گلوکار علی ظفر کی حمایت میں سوشل میڈیا کی ایک بریگیڈ نے میشا شفیع پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیا۔ کچھ نے کہا کہ یہ اتنے چھوٹے کپڑے ہی کیوں پہنتی تھی؟ کچھ نے یہ راگ الاپا کہ یہ علی ظفر کے ساتھ اتنا چپک چپک کے تصاویر کھینچواتی تھی تو اب ہراساں کرنا یاد کیوں آیا؟ کئی لوگوں نے تو یہ تک کہا کہ میشا شفیع کا ضمیراب کیوں جاگا جب کئی بار جنسی ہراساں کیا تو کیوں پہلی ہی بار آواز نہیں اٹھائی؟ زیادہ تر لوگوں نے میشا شفیع کے لباس اور رہن سہن پر تنقید کی اور اس سب صورتحال کے بعد مجھے لگنے لگا کہ شاید اگر کوئی لڑکی چھوٹے یا تنگ کپڑے پہنے تو مردوں کے اندر کا درندہ جاگ جاتا ہےاور پھر مرد کتنا بھی مہذب کیوں نہ ہو وہ اپنی درندگی پر ضرور اترتا ہے۔ پھر اچانک مجھے اس پاگل لڑکی کا خیال آیا اور میں نے اپنے پرانے تمام خیالات کو جھٹک دیا اور سوچا کہ جس شخص میں درندہ چھپا بیٹھا ہو وہ اچھے، چھوٹے یا تنگ کپڑوں کو کبھی نہیں دیکھتا وہ صرف اپنی ہوس بجھانا جانتا ہے، پھر چاہے سامنے گندی مندی تعفن سے بھری پاگل لڑکی ہی کیوں نہ ہو۔ میشا شفیع اور علی ظفر کے معاملے میں حقیقت جو بھی ہو لیکن ایک بات واضح ہے وہ درندہ صفت لوگ جو میشا شفیع پر کیچڑ اچھال رہے ہیں یا گلوکارہ کے پہناوے اور جسم سے متعلق کمنٹس کر رہے ہیں۔ یہ وہ ہی لوگ ہیں جن کی آنکھیں عورت کو کبھی نہیں دیکھتیں بلکہ عورت کے وجود سے جڑے گوشت پوست میں اپنی لذت تلاش کرتی ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی آنکھیں عورت کو دیکھتے ہی گندگی کا تالاب بن جاتی ہیں اور یہ کچھ بھی اچھا دیکھ ہی نہیں سکتے۔ یہ تو ہراسانی کا مطلب بھی نہیں جانتے کیوں کہ کہیں نہ کہیں، کسی بازار یا ہجوم میں انہوں نے بھی جان بوجھ کر خاتون کا لمس محسوس کرنے کیلئے اسے چھوا ضرور ہے۔ انسان کی کھال میں چھپے ایسے کتنے ہی بھیڑیے آج میشا شفیع کو کم کپڑے پہننے پر طعنے دے رہے ہیں، جو راہ چلتی عورت کے مکمل لباس میں بھی ان کا ایکسرے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی تو اس حد تک گر چکے ہیں کہ وہ ٹریفک سگنلز پر اخبار بیچنے والی عورتوں، فقیرنیوں اور پاگل خواتین کو بھی نہیں بخشتے۔ جو لوگ گندگی سے بھرپور خواتین کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بناتےہیں، ان کیلئے آپ کیا کہیں گے؟ اس پاگل لڑکی نے تو کپڑَے پورے اور اتنے گندے پہنے ہوتے تھے کہ اس کے جسم سے تعفن اٹھتا تھا لیکن پھر بھی اس کے ساتھ وہ کیا گیا جس کو بیان کرتےہوئے بھی شرم آتی ہے۔ انسان کیا اگر ہم جانوروں کی بات کریں تو وہ بھی بدبودار اور مردار گوشت پر منہ نہیں مارتا لیکن ہمارے ہاں کئی خبریں آتی ہیں کہ قبروں سے خواتین کو نکال کر ان کی بےحرمتی کی گئی۔ عورت کے کپڑوں پر تنقید کرنے والوں سے سوال ہے کہ جس دنیا میں کفن میں لپٹی عورت کی لاش بھی محفوظ نہ ہو کیا وہاں پر بسنے والے مردوں کو آپ انسان کہیں گے؟ کیا آپ ایسے معاشرے میں اپنی بہن بیٹی کی پرورش کرنا چاہیں گے؟ اگر نہیں تو کسی بھی آواز اٹھانے والی خاتون کا ساتھ اس لئے نہ دینا کہ وہ چھوٹے یا تنگ کپڑے پہنتی تھی، اس خاتون نہیں بلکہ اس پورے معاشرے سے زیادتی ہے۔ اگر ہم نے اپنی عزتوں کو محفوظ کرنا ہے تو دوسروں کی عزتوں کی حفاظت کرنا ہوگی تب ہی ہمارا معاشرہ ہر ایک کے لیے محفوظ معاشرہ بن سکے گا۔