ترکی سے آنے والی بری خبروںمیں اسحق ڈار کی بڑی خبر دب کے رہ گئی۔میرے لئے ذاتی طور پر یہ معاملہ ایسا تھا کہ ا س پر فوری قلم اٹھاتا، میںنے اپنی عادت سے ہٹ کر اسحق ڈار اور ان کے مبینہ فرنٹ مین سعید احمد کی پارسائی کی قسم کھائی تھی۔جبکہ عمران خان اینڈ کمپنی ان کے بارے میں اوٹ پٹانگ الزامات کو دہرائے چلی جا رہی تھی، اب بھی ڈار صاحب کی بریت کا فیصلہ آیا تو عمران خان نے اس پر اعتراض داغ دیا، عمران خان نہ ہوئے، اعتراض خان ہو گئے، انہیں چاہئے کہ نام بدل لیں، وہی نام رکھ لیںجیسے ان کے معاملات ہیں۔
اسحق ڈار کو صرف پانامہ لیکس میںمطعون نہیںکیاگیا، انہیںجنرل مشرف کے مارشل لا کی احتسابی ٹیم نے بھی اسی الزام میں گرفتار کیا، ٹارچر بھی کیا ہو گا، شریف آدمی کے لئے صرف گرفتاری ہی ذہنی ٹارچر ہے اور یہ جسمانی ٹارچر سے زیادہ تکلیف دہ ہے، میں نے عید سے پیشتر پہلی مرتبہ نوائے وقت کے دفتر میں فون کیا ا ور چیف ایڈیٹرمحترمہ رمیزہ مجید نظامی سے فون پر بات کی، میں انہیں اپنے مرشد مجید نظامی کی وفات کے بعد گھر میں عید ہی کے رو زملا تھا، یہ ایک سوگوار عید تھی، اب کے عید آئی تو میں سوگوار تھا کہ مجھے ایک ادارے کی طرف سے ذہنی ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا تھا ، میںنے جس ادارے کے لئے برسہا برس لکھا،ا سی سے مجھے جھاڑیں کھانے کو ملیں تو یہ فکرا ور تشویش کی بات تو ہو گی، اسے ذہنی ٹارچر کہتے ہیں اور شاید میں اپنی زندگی کے آخری سانس تک اس ٹارچر کو نہ بھول پاﺅں، بہر حال ٹارچر سے تو اسحق ڈار بھی گزرے ہوں گے، کہتے ہیں کہ انہوںنے ایک بیان حلفی دے کر اپنی جان چھڑائی۔ اس بیان حلفی کی عدالت کے سامنے کوئی حیثیت نہ تھی، جیسے ترکی میں پیر کے رو زایک سابق ایئر چیف کو عدالت میں پیش کرکے دعوی کیا گیا کہ اس نے بغاوت کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا اعتراف کر لیا ہے، اس ایئر چیف نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ اس سے زبردستی یہ بیان منسوب کیا جا رہا ہے۔ زبردستی لئے گئے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، اسحق ڈار نے بھی ہمیشہ کہا کہ ان سے زبردستی ایک بیان پر دستخط کروائے گئے تھے۔ اگر یہ بیان سچا ہوتا تو اسحق ڈار کو سیف ہاﺅس سے باہر کیوں نکالا جاتا۔
پانامہ کا قصہ چھڑا اور اسحق ڈار کو عوامی تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا تو میںنے ان کے دفاع میں لکھا، ان کی بے گناہی کاحلف اٹھایا، کہا یہ گیا تھا کہ انہوں نے اپنے دوست سعید احمد کے ذریعے منی لانڈرنگ کی ہے۔ میں اسحق ڈارا ور سعیداحمد دونوں کو جانتا ہوں ۔آج سے نہیں، پچاس برس سے جانتا ہوں۔ سعید احمد ایک نیکو کار اور دیانتدار شخص ہیں، سیلف میڈ ہیں، ہمیشہ فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن لیتے رہے اور انتہائی غربت اور عسرت کے ماحول میں آنکھ کھولنے ا ور پرورش پانے کے باوجود ایک بڑے انسان بنے، عظمتوں ا ور رفعتوں سے ہمکنار ہوئے، میں ا ن کے ا وصاف لکھتا ہوں تووہ مجھ سے لڑتے ہیں کہ میں ان کی نیکیوں کو کیوں اچھالتا ہوں، وہ کہتے ہیں، میں اتنانیک نہیں، شاید اللہ مجھے اتنانیک نہ سمجھتا ہو مگر میں تو وہی لکھوں گا جیسا میںنے انہیں دیکھا اور پایا،ا سی لئے میں نے لکھا کہ میںسعید احمد کی پارسائی اور دیانت کی قسم کعبہ کی چوکھٹ کو تھام کر کھا سکتاہوں۔کسی نے میرے اوپر تبرہ کیا کہ آپ سے قسم مانگی کس نے ہے ا ور آپ کی قسم پر اعتبار کون کرتا ہے، میں کہتاہوں کہ کوئی اعتبار کرے یا نہ کرے، میرا اللہ ضروراس پر اعتبار کرے گا اور ورز قیامت مجھے ا س شرمندگی کا سامنانہیں کرناپڑے گا کہ میں ایک شخص کی بے گناہی کا شاہد تھا اور میںنے یہ شہادت چھپائی۔ شہادت چھپانا بھی گناہ عظیم ہے۔
جنرل مشرف کی احتسابی ٹیم نے اسحق ڈار کی کیا کیا جانچ پڑتال نہ کی ہو گی۔ اس ڈکٹیٹر اعظم نے تو میرے بیٹے کو بھی قید کیا، بھائی کو بھی قید کیاا ور تب جان چھوڑی جب میںنے اپنا ایک کنال کا نیا مکان اونے پونے بیچ کر اس کا تقاضہ پورا نہ کر دیا تو اگر اسحق ڈار کا دور پار سے بھی کوئی تعلق منی لانڈرنگ سے ہوتا توا سے بھی بے نظیر کی طرح کوئی ا ین آ ٓرا و کر کے ہی جان چھرانی پڑتی مگر وہ باعزت بری کر دیا گیا، جب وہ رہا ہوا تو میںنے ا سے فون کر کے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ، انہوں نے ایم ایم عالم روڈ پر ایک دفتر میں بلا یا، عمارت تو بہت وسیع تھی مگر اندر ہو کا عالم تھا، صاف ظاہر تھا کہ کاروبار نام کی کوئی چیز نہیں ، شاید وہ کسی کام کی پلاننگ میںمصروف ہوں گے۔مجھے ان کی حالت دیکھ کرحیرت ہوئی کہ وہ توا س ملک کا دوبار وزیر خزانہ رہ چکا تھا، لاہور چیمبر میںنبھی سرگرم عمل رہا تو یہ ہیئت کذائی کیوں۔ منی لانڈرنگ کرنےءوالے کی ایسی شکل تو نہیں ہونی چاہئے تھی، میں ا سی و قت ا سکی بے گناہی کا قائل ہو گیا تھا۔
اب شور مچا ہے تو ظاہر ہے نیب نے پھر فائلیں کھنگالی ہو ں گی، ان فائلوں میںکوئی ثبوت تھا تو انہیں دیمک تو نہیںکھا گئی تھی۔یہ کہنا حماقت ہے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے ان پر کیسے ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے، یہ کہنا ایک خود مختار ادارے پر الزام تراشی کے مترادف ہے، اگر ایسا ہوتا تو خیبر پی کے کا وزیر کرپشن میں گھر کیوں جاتا۔میاںنواز شریف کے پہلے دور میں کوآپریٹو اسکینڈل منظر عام پرا ٓیا ،ا س میں صرف نواز شریف کا نام نہیں تھا ، چودھری برادران کا نام بھی تھا اور ایک عدالتی کمیشن بنا جس نے تحقیقات کے بعد ان الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔صدر زرداری بھی تو یہی کہتے ہیں کہ وہ اس لئے بے گناہ اور مرد حر ہیں کہ برسوں ان کے خلاف مقدمات چلے مگر کچھ ثابت نہیں ہوا، اب اگر اسحق ڈار کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا تو ان کو بھی مرد حر نہ سہی، نیکو کار کا سرٹی فیکیٹ تو دیا جائے۔
ایک بات ا ور عرض کئے دیتا ہوں ، کوئی مہنیہ ڈیڑھ مہنہ پہلے سعید احمد لاہور آئے، اسٹیٹ بنک کے کمرے میں ٹھہرے تھے، میںنے ان سے پوچھا کہ آپ اس قدر نیک انسان ہیں، اسحق ڈارا ٓپ کے دوست بھی ہیں، انہوں نے آپ کو بدنام کرنے کے لئے ایک جھوٹا الزام کیوں عاید کیا۔سعید احمد نے قہقہہ لگایا، کہنے لگے ، ہم نے ایک کاروبار کے لئے مشترکہ طور پر کمپنی تو تشکیل دی تھی مگراڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہوئے ہم ،ا س کمپنی کا ایک ا کاﺅنٹ بھی کھولا مگر مشرف کے محتسب فرشتوںنے اس اکاﺅنٹ کو محدب عدسے، سے دیکھا، اس میں کسی ایک پائی کی ٹرانزیکشن نہ ہو پائی تھی۔ ہے نہ قہقہہ لگانے کی بات۔ تو پھر اسحق ڈار کو بھی قہقہہ لگانے کا موقع دیجئے ا ور ان سے مٹھائی مانگئے کہ ا ٓخر وہ باعزت بری ہوئے ہیں ا وروہ بھی نیب کے چنگل سے جو مکھی چوس کی شہرت رکھتا ہے، کنگال کی جیب سے بھی کچھ نہ کچھ نکال لیتا ہے۔
تحریر اسد اللہ غالب، بشکریہ نوائے وقت