counter easy hit

اسحاق ڈار غریبوں کا مذاق نہ اڑایں

Ishaq Dar

Ishaq Dar

تحریر : سید انور محمود
پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے قومی اسمبلی میں ملک میں مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے جب ماش کی دال کی قیمت کا ذکر کیا تو پیٹ بھرئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے فرمادیا کہ لوگ دال چھوڑ کر مرغی کھالیں۔ قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑئے ہوکر اسحاق ڈار نے جیسے اس قوم کا مذاق اڑایا ہے کہ ’’دال مہنگی ہے تو مرغی کھاؤ‘‘، ٹھیک اس طرح ہی فرانس کے ملکہ میری انٹونیے نے بھی اپنے بھوکےعوام کا مذاق اڑایا تھا کہ ’’روٹی نہیں ہے تو کیک کھاؤ‘‘، اسی ملکہ کو لوگوں نے گھسیٹ کر محل سے نکالا تھا۔ ماضی بتاتا ہے کہ انقلاب فرانس ایسے ہی حالات میں خونریزی مچاتے ہوئے واقع ہوا تھا۔ 1789ء میں فرانس میں خونی انقلاب برپا ہوا، ملکہ میری انٹونیے، شاہ لوئی اور ان دونوں کی اولاد، سب کا انجام انتہائی بھیانک طریقے سے ہوا تھا۔

انقلاب بھوک کی وجہ سے نہیں آیا تھابلکہ جب قوم کا مذاق اڑایا گیا تو اصل انقلاب آیا تھا۔لگتا ہے جس طرح اسحاق ڈار معاشیات کی الف ب پڑھے بغیر ایک اکاونٹینٹ ہوتے ہوئے ملک کے وزیر خزانہ بن گئے، شاید اس طرح ہی تاریخ سے اور خاصکر انقلاب فرانس سے بھی نابلد ہیں۔ اسحاق ڈار نے پاکستان کے غریبوں اور خاصکر 65 سے 70 فیصد ان غریبوں کا مذاق اڑایا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنکی آمدنی دو امریکی ڈالر یا 200 روپے روزانہ تک ہے، یہ اپنی 70سے 80 فیصد آمدنی صرف اپنی غذا پر خرچ کرتے ہیں، کبھی ان کے پیر میں جوتا نہیں ہوتا تو کبھی یہ مناسب لباس کےلیے ترس رہے ہوتے ہیں۔ اسحاق ڈار کو چاہیے کہ کچھ وقت نکال کر اپنے ملک کے عوام کا حقیقی حال بھی معلوم کرلیا کریں۔

پاکستانی عوام غربت اور جہالت کے دردناک عذاب میں مبتلا ہیں جبکہ ہمارئے حکمرانوں کی دولت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہےلیکن کبھی اس ملک میں آٹے کا بحران آجاتا ہے تو کبھی چینی کا، اور کبھی آلو اور پیاز کی شدید قلت ہوجاتی ہے۔ اس میں ناکامی ملکی پیداوار کی نہیں بلکہ حکمرانوں کی ہے۔پاکستان میں ہم قومی حیثیت سے غربت اور جہالت کے جس نقطے پر کھڑے ہیں وہاں سے تعمیر و ترقی کی منزل اتنی دور ہے، اتنی دور ہے کہ اس کے بارے میں سوچنا بھی ناممکن ہے۔

Pakistan

Pakistan

بدقسمتی سے پاکستان میں اس وقت حکومت ایک ایسے کاروباری فرد کے ہاتھ میں ہے جس کا واحد مقصد خود اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔نواز شریف نے پہلے کروڑ پتی اور پھر ارب پتی بننے کی جو شاندار مہم چند سال میں طےکرلی اسے دوسرے سیاسی رہنما شاید صدیوں میں بھی سر نہیں کر سکتے۔ نواز شریف اور انکے ساتھی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک ایک رات میں بنجر زمینوں سے محل اگائے ہیں اور ایک ایک دن میں دولت و ثروت کی فصلیں کاٹی ہیں۔ یہ لوگ ‘زرگری’ اور زرپرستی کے علاوہ کوئی قدر نہیں مانتے، ان کا صرف ایک ہی نصب العین ہے یعنی دولت کھینچنا، قوم جہنم میں جائے انہیں تو اپنے کام سے کام ہے، کیا ہوگیا جو اسحاق ڈار نے قوم کا تھوڑا سا مذاق اڑا لیا۔

پاکستان کی بدنصیبی کا یہ حال ہے کہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جاتے، جبکہ 80 فیصد پاکستانیوں کو صحت کی سہولت میسر نہیں ہیں۔ اسحاق ڈار سے پہلے وزیرصحت بھی عوام پر ستم ظریفی فرماچکی ہیں ، جب انہوں نے قوم کو مشورہ دیا تھا کہ مہنگی دوا نہ خریدیں بلکہ سستی دوا خریدا کریں۔ آج پاکستان واضع طور پر دو حصوں میں بٹ چکا ہے، اب امیر اور غریب جیسے شرمناک الفاظ گفتگو میں بار بار استعمال کیے جاتے ہیں اور گویا اخلاقی اور سماجی طور پر اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ پاکستان میں دو قومیں آباد ہیں۔ ایک غریب اور ایک امیر، ایک کرسی نشین اور ایک خیمہ بردار۔

آج ہمارے ملک میں امیر، امیر ترین بننے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے، اس نے پوری قوم کے دماغ کو ماؤف اور ذہن کو خراب کر دیا ہے۔ شازیہ مری کا کہنا تھا کہ عوام کو مرغی اور دال کے چکر میں نہ پھنسا یا جائے، باہر نعرے لگ رہے ہیں ڈار کی دال مرغی برابر ۔انہوں کہا کہ لگتا ہے حکومت نے انقلاب فرانس سے کچھ نہیں سیکھا ۔ جو لوگ ملک کی ذہنی تعمیر و ترقی سے دلچسپی رکھتے ہیں، جنہیں اس قوم کے مستقبل سے ذرا بھی ہمدردی ہے انہیں اسحاق ڈار کے اس مذاق کے خلاف سخت احتجاج کرنا چاہیے۔پاکستان اور تنازعات میں گھرے دنیا کے52ملکوں میں 800ملین افراد بھوک کا شکار ہیں،جاری فہرست میں پاکستان کا نمبر11واں ہے۔

Poverty

Poverty

وزیر خزانہ اسحاق ڈارکو معلوم ہونا چاہیے کہ ’’انگلینڈ میں فرانس سے زیادہ غربت تھی، بلکہ انگلینڈ کے لوگ تو پرانے چمڑوں کو ابال کر سوپ تیار کر کے زندگی گزارتے تھے، لیکن وہ فرانس کے عوام کی طرح سڑکوں پرنہیں نکلے۔ انہوں نے امراء اور رؤساء کا قتل نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انگلینڈ میں فرانس کے بادشاہوں کی طرح عوام کی غربت کا مذاق اڑانے والا کوئی نہ تھا۔ کسی ملکہ نے یہ الفاظ نہیں بولے تھے کہ ’’لوگوں کو اگر روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟‘‘ لوگ بھوک اور افلاس تو برداشت کرلیتے ہیں، لیکن اپنا مذاق اڑانا ان سے برداشت نہیں ہوتا اور پھر قتل و غارت کی ایسی تاریخ رقم کرتے ہیں جس میں کوئی پوچھتا تک نہیں کہ کون قصور وار ہے اور کون نہیں؟ بس جو شکل و صورت یا لباس سے سرمایہ دار امیر نظر آتا ہے اس کی گردن اڑا دی جاتی ہے‘‘۔ نواز شریف کے پاس اب بھی دو سال باقی ہیں لہذا اگر وہ اپنے عوام کےلیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اب بھی انکو موقعہ ہے، قوم کو اسکولوں، کالجوں، تربیت گاہوں، شفاخانوں، لہلہاتے کھیتوں اور کارخانوں کی ضرورت ہے، ان مسئلوں کے سامنے باقی تمام مسئلے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔

نواز شریف، اسحاق ڈاریہ بات یاد رکھیں کہ یہ دور پاکستان کی زندگی کا بڑا نازک دور ہے، اگر اس دور میں سماج کی منفی قدروں کو استحکام حاصل ہو گیا تو یہ ملک نفسیاتی، اخلاقی، تہذیبی اور سیاسی اعتبار سے دیوالیا ہوکر رہ جائے گا اور پھر اس کا ازالہ کسی طرح بھی ممکن نہ ہو سکے گااسلام آباد میں 16 اگست 2014 کو شروع ہونے والے علامہ طاہر القادرری اور عمران خان کے دھرنوں میں ایک بھی بھوکا شامل نہیں تھا، علامہ طاہر القادری کے ساتھ زیادہ تعداد انکے مریدوں کی تھی جو قطعی بھوکوں میں شمار نہیں ہوتے جبکہ عمران خان کے ساتھ تحریک انصاف کے ورکر تھےاور انکا شمار بھی بھوکوں میں نہیں ہوتا، لیکن انہوں نے سپریم کورٹ کی دیواروں کو اپنے گندے کپڑوں سے سجایا ہوا تھا۔ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاوس بھی غیر محفوظ تصور کیے جارہے تھے، پارلیمینٹ کی عمارت میں پورئے پاکستان کے سیاستدان موجود تو تھے لیکن سہمے ہوئے تھے۔

یکم ستمبر 2014کو دھرنے کے کچھ شرکا پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہوئے اور پی ٹی وی وی کی عمارت پر قبضہ کرلیا، ان قابضین کو نہ تو پولیس روک پائی اور نہ ہی فوج۔ پی ٹی وی کی عمارت پر کچھ دیر قابض رہنے کے بعد فوج کے کہنے پر قابضین نے پی ٹی وی کی عمارت کا قبضہ چھوڑ دیا۔ اسحاق ڈار کو سمجھانا یہ ہے کہ دھرنے کے لیڈروں کا مقصد سیاسی تھا انقلابی نہیں تو آپکی حالت خراب ہو گئی تھی، ذرا سوچیں اگر آپکی ان ظالمانہ معاشی پالیسیوں کی وجہ سے کسی دن اسلام آباد کے ڈی چوک پرپاکستان کے غریب اور بھوکے جمع ہوگئے تو آپکا کیا ہوگا، کیونکہ غریبوں اور بھوکوں کا جب انقلاب آتا ہے تو وہ اپنے سامنے آئی ہوئی ہر چیز کو تباہ کرتے چلے جاتے ہیں، انکا کوئی رہنما نہیں ہوتا وہ خود اپنے رہنما ہوتے ہیں ، اس لیے ان کو روکنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، لہذا آیندہ پاکستان کے غریب اور بھوکے عوام کا فرانس کی ملکہ کے انداز میں مذاق نہ اڑایں تو یہ آپکے لیے ہی بہتر ہوگا۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر : سید انور محمود