اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو 3 ماہ کے اندر اندر حقیقی شہریوں کے بلاک شدہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کو فعال کرنے کی ہدایات جاری کردیں۔
نادرا کی جانب سے شہریوں کی شناخت کی دوبارہ تصدیق کی مہم کے دوران کئی ایسے شہریوں کے شناختی کارڈز بھی بلاک کردیئے گئے تھے جو واقعی پاکستانی شہری ہیں۔
نادرا ہیڈکوارٹرز میں آن لائن شکایتی مرکز کا افتتاح کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے صحافیوں کو بتایا کہ اصل شہریوں کے شناختی کارڈز کا طویل عرصے تک بلاک رہنا کسی طور درست نہیں۔
واضح رہے کہ شناخت کی دوبارہ تصدیق کی مہم کے دوران نادرا کی جانب سے ملک بھر میں ہزاروں شناختی کارڈز بلاک کیے گئے، اس اقدام سے سب سے زیادہ خیبر پختونخوا اور فاٹا کے افراد متاثر ہوئے، شناختی کارڈ فعال نہ ہونے کی وجہ سے کئی افرادپاسپورٹ نہ حاصل کرسکے اور اس سال فریضہ حج کی ادائیگی سے بھی محروم رہ گئے ۔
خیبر پختونخوا اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد کو آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا کیونکہ علاقے میں چیک پوسٹس پر تعینات سیکیورٹی کی جانب سے ان پر افغان مہاجرین ہونے کا شبہ کیا جاتا رہا۔
وفاقی وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ شناختی کارڈ ز کی تصدیق کے عمل میں کئی ایجنسیاں سرگرم ہیں، ساتھ ہی انہوں نے اس تمام عمل کو جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔
چوہدری نثار کا مزید کہنا تھا کہ یہ صورتحال انہیں کافی پریشان کررہی ہے اور سیاسی جماعتوں کے سینئر لیڈر بھی اس مسئلے پر ان کے ساتھ ہیں۔
گذشتہ دنوں افغانستان ڈی پورٹ کی جانے والی افغان مونا لیزا شربت بی بی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ شربت بی بی نہ جاسوس تھیں اور نہ ہی مجرم، ان کا واحد جرم پاکستان کا جعلی شناختی کارڈ حاصل کرنا تھا، اس لیے حالات کو دیکھتے ہوئے انہیں انسانی بنیادوں پر ان کے وطن واپس جانے کی اجازت دے دی گئی۔
جعلی شناختی کارڈ: افغان ‘مونا لیزا’ پشاور سے گرفتار
سندھ میں گورنر کی تبدیلی پر وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر عشرت العباد لمبی اننگ کھیل چکے تھے اور کبھی نہ کبھی اسے ختم ہونا تھا‘۔
لیکن وفاقی وزیر نے سابق گورنر پر سنجیدہ نوعیت کے الزامات کے باوجود باہر جانے اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل نہ کرنے پر کسی بھی تبصرے سے گریز کیا۔
عشرت العباد تبدیل، جسٹس سعید الزماں گورنر سندھ مقرر
چوہدری نثار نے عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے خط موصول ہونے کی تصدیق کی، شیخ رشید کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں ہائی لیول سیکیورٹی میٹنگ پر شائع ہونے والی ڈان کی خبر پر قائم کی جانے والی انکوائری کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس ہر نان ایشو کو ایشو بنانے والے لوگوں کا کوئی حل موجود نہیں‘۔
ان کا مزید بتانا تھا کہ خبر کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس عامر رضا خان معزز جج ہیں جنہوں نے 1981 میں جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت میں پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔
ڈان لیکس کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ جج عامر رضا خان کے ساتھ نہ وزیراعظم اور نہ ہی ان کی کوئی جان پہچان ہے، ان کا انتخاب صرف اور صرف ان کی دیانت کی بنا پر کیا گیا۔
تاہم کئی افراد اس متعلق تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف جسٹس عامر رضا خان کو نہیں جانتے تھے تو 2013 کے عام انتخابات سے قبل ان کا نام پنجاب کے قائم مقام وزیراعلیٰ کے لیے تجویز کیسے کیا تھا۔
کمیٹی کے ایک اور رکن، سیکریٹری آف اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سید طاہر شہباز سے متعلق سوال پر چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ انہیں موجودہ حکومت پنجاب سے وفاق لے کر نہیں آئی، انہیں سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے وفاق بلا کر کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ طاہر شہباز کی سروس پر بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے سوال اٹھایا گیا تھا اور وہ تین سال تک اپیکس کورٹ میں بطور رجسٹرار کام کرتے رہے۔
انہوں نے بتایا کہ کمیٹی کے ایک اور رکن نجم سعید پنجاب کی جانب سے تحقیق کے لیے شامل کیے گئے ہیں۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ پنجاب ایف آئی اے کے ڈائریکٹر عثمان انور بھی کمیٹی کا حصہ ہیں اور وہ مسلسل دو سال تک سال کے بہترین آفیسر رہنے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ شیخ رشید کو شاید عامر رضا کے نام سے غلط فہمی ہوئی ہے‘۔
چوہدری نثار کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے اور اس کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے۔