تحریر : میر افسر امان
پاکستانی اخبارات کے مطابق امریکا کی سابقہ وزیر خارجہ اور موجودہ صدراتی امیدوار ہلیری کلٹن نے اپنی یادشتوں پر مشتمل کتاب میں داعش بنانے کا اعتراف کر لیا ہے۔اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے اس نے کہا کہ امریکا نے مشرق وسطی کے حالات کو کنٹرول کرنے اور اسے تقسیم کرنے کے لیے ایسا کیا تھا۔امریکا نے طے کیا تھا کہ داعش کو ٥ جنوری ٢٠١٣ء کو اپنے پورے اتحادیوں کے ساتھ تسلیم کرنے کااعلان کر دے گا۔ جبکہ اس دوران امریکی حکام دعوے کرتے رہے کہ انہیں داعش کی سرگرمیوں کا کوئی علم نہیں تھا۔ یہ بھی اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ سی آئی اے نے برسوں پہلے اردن کے ایک کیمپ میں داعش کے دہشت گردوں کو تربیت دی تھی۔ہلیری کلنٹن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ میں نے ایک سو بارہ ملکوں کا دورہ کیا تھا تاکہ انہیں امریکا کے کردار اور داعش کی اسلامی حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق بعض اتحادیوں کے ساتھ ہونے والے اتفاق رائے سے آگاہ کر سکوں۔لیکن اچانک سب کچھ چکنا چور ہو گیا۔امریکی سینیٹررانڈ پال نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکا کی جانب سے شام میں اپنے اتحادیوں دھڑوں کے لیے اسلحے کی ترسیل کو داعش کی تقویت کی ایک اہم وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ شام میں داعش گروہ ہمارا اتحادی تھا۔
ہم نے شامی حکومت کی دفادار فوج کو پیچھے دکھیلنے کے لیے انہیں اسلحہ فراہم کیا تھا اور شام میں ان کے لیے محفوظ ٹکانے بھی بنا کر دیے تھے انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ شام میں ہماری مداخلت عراق کی موجودہ صورتحال کا سبب بنی ہے۔ ادھر موقعہ سے فاہدہ اٹھاتے ہوئے ری پبلکن صدارتی امیدوار دونلڈ ٹرمپ نے اپنے حریفوں پر حملے جاری رکھے اور کہا کہ داعش اوباما اور ہلیری کلنٹن نے بنائی تھی۔جہاں تک پاکستان میں داعش کے وجود کا تعلق ہے تو اخباری اطلاع کے مطابق ١٢١ پاکستانی خواتین داعش کے لیے سرگرم ہیں۔ سانحہ صفورہ کی تحقیقات کے دوران ملزم سعد عزیز کی نشان دہی پر حال ہی میں گرفتار ہونے والا عمر کاٹھیو عرف جلال داعش کے سلیپر سیلز کو احکامات دیتا تھا۔ملزم کی اہلیہ بھی داعش خواتین کی سربراہ نکلی۔کراچی سے متعدد لڑکے شام جا چکے ہیں۔کامران گجر کی اہلیہ خواتین کو بھرتی کرتی رہیں۔عمر کاٹھیو نے ٢٠١١ء میں سندھ میں دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کیا تھا۔
القاعدہ کے دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرتا تھا۔پھر القاعدہ سے داعش میں شمولیت اختیار کی ۔اس کی اہلیہ سندھ میں داعش کی خواتین کا نیٹ ورک چلاتی ہے۔داعش اسلام آباد کا امیر عامر منصور سیا لکوٹ سے رفتار ہوا۔وہ داعش میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کو٠ ٣ سے ٥٠ ہزار روپے ماہانہ ادا کیا کرتا تھا۔اس نے پاکستانی سیکورٹی اداروں کو داعش میں شامل پاکستانیوں کی فہرستیں بھی فراہم کی ہیں۔نہ معلوم کہ ہمارے لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ دشمن ان کو استعمال کر رہا ہے۔ اسلام تو امن و آشتی کا مذہب ہے۔کیا اسلام کی یہ تعلیمات ہیں کہ بے گنائوں کو قتل کر دیا جائے جبکہ انہوں نے مارنے والوں میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچائے ہو۔ صفورہ سانحہ کے واقعے میں جن بے گنائوں کو خون میں نہلا دیا گیاتھا ان کا کیا قصور تھا۔یہ کھلی ہوئی ظلم کی کہانی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
ہم تو یہ نہیں سمجھتے کہ مسلمان دہشت گرد ہوسکتا ہے۔ دہشت گرد مسلمان ہے یا مسلمانوں والے نام رکھ کر دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔آج کے دور کی مثال ہمیں اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مسلمان تو جنگ بھی دشمن کو پہلے اطلاع دے کر شروع کرتے تھے کجا کہ شب خون مار کر دہشت گردی کی جائے۔ہم اکثر بیرونی دشمنوں کو کوستے رہتے ہیں بیرونی دشمن اس وقت تک دہشت گردی نہیں کر سکتا نہ کروا سکتا ہے جب تک اندرونی ایجنٹ اس کو مل جائیں۔ انسانی ذہن کام کرنا چھوڑ دیتا ہے کہ مسلمان دنیا میں کیسے دشمن کے ایجنٹ بن کر اپنے ملک میں دہشت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔کیا داعش مسلمان ملکوں میں کام نہیں کر رہی۔ ہمارے ملک میں پہلے اس کا نام و نشان بھی نہیں تھا صفوہ سانحہ کے بعد اس کا انکشاف ہوا تواسلامی ذہن رکھنے والے پاکستانی حیران ہیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے کہ ہمارے ملک کے پڑھے لکھے لوگ دشمن کی چالیں کیوں نہیں سمجھ رہے اوربے تحاشہ دہشت گردی کی کاروائیوں میں شامل ہو رہے ہیں بلکہ باہر بھی جا رہے ہیں۔صاحبو! اگر کوئی کہے کہ ملک میں بے انصافی ہو رہی ہے نوجونوں کو نوکریاں نہیں مل رہیں غربت بہت بڑھ گئی ہے جس وجہ سے نوجوان دہشت گردی میں ملوث ہو رہے ہیں۔اگر اسلامی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ وجوحات بل لکل بھی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتی روزی اللہ کے ہاتھ میں جسے چاہے زیادہ دے جسے چاہے کم دے۔
انسان کو روزی کمانے کی جدو جہد کرنے چاہیے تھوڑے پر ہی صبر کرنی چاہیے اور مذید کمانے کی کوشش کرنی چاہے۔اب جب پاکستانیوں اور دنیا کے مسلمانوں پر واضع ہو چکا ہے کہ امریکا نے داعش کو بنایا تھا اور وہ اس سے مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے یعنی مشرق وسطی کو تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ اب تو مسلمانوں اور خاص کر مسلم دنیا کے حکمرانوں کو عقل آنی چاہیے کہ دشمن ان کو آپس میں لڑانے کی پالیسی پر عمل کر کے مسلمانوں پر حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔ساری مسلم دنیا کے حکمران امریکا کے غلام ہیں۔ ان کے ملکوں کی پالیسیاں امریکی حکم کے مطابق بنتیں ہیں جو مسلم عوام کے خلاف ہوتیں ہیں۔ جس مسلمان ملک کو دیکھو وہ امریکی امداد کی طرف دیکھتا ہے۔اپنے ملک کے وسائل پر بروسہ نہیں کرتا۔غریب ہوتے ہوئے بھی فضول خرچی میں مبتلا رہتا ہے امریکا جب کسی ملک کی امداد کرتا ہے تو آدھی امداد تو اس کے مشیروں پر خرچ ہو جاتی ہے اور باقی ملک کے لوگ کرپشن کر کے لوٹ لیتے ہیں عوام کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ اس بات اعتراف پیپلز پارٹی دورکے پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور حکمرانی میں اخبارات میں کیا تھا۔
ویسے بھی اگر امداد سے کچھ ملتا ہوتا تو جب سے پاکستان بنا ہے امریکا ہمارا دوست ہے ہم اخبارت میں پڑھتے رہتے ہیں کہ امریکا نے اتنی امداد دی۔ ٹی وی پر امریکا کی طرف سے امداد اشتہار بھی آتے رہتے ہیں کہ امریکاہماری مدد کر رہا ہے مگر پاکستانی قوم کی حالت ویسے کی ویسی ہی ہے پھر امداد کہاں گئی زمین میں دھب گئی یا آسمان پرچڑھ گئی۔کیا غریب ملک کے موجودہ حکمران ایک دوسرے کی دعوتوں میں ٧٠ قسم کے کھانے پیش کر کے فضول خرچی کا مظاہرہ نہیں کر چکے۔ ہمیں اپنے وسائل کے اندر رہ کر ہی اخراجات کرنے چاہییں۔ اپنی ہی مٹی پر چلنے کا سلیکا سیکھو۔ ۔ ۔ سنگ مر مر پر چلو گے تو پھسل جائو گے۔ پاکستانی مسلمانوں کو داعش کے فتنے سے بچنا چاہیے۔ کسی قسم کی بھی دہشتگردی سے دور رہنا چاہیے ۔دشمن نے ہمیں آپس میں لڑا دیا ہے ہمارے ملک کے اندر داعش جیسے فتنے کھڑے کر دیے ہیں جوہمیں تبائی کی طرف لے جا رہے ہیں۔اس لیے اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمارے ملک کو داعش جیسے فتنوں سے بچائے آمین۔
تحریر : میر افسر امان