تحریر: سجاد گل
داعش مجموعہ ہے ،د۔ا۔ع۔ش کا۔ د سے دولت، الف سے اسلامیہ، ع سے عراق اور، ش سے شام (دولتِ اسلامیہ عراق و شام)، آج کل پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرونک میڈیاتک اور سوشل میڈیا سے لے کر گپ شپ میڈیا تک ہر سو ہر جا داعش ہی کے چرچے ہیں،ہر طرف یہی کھسر پھسر چل رہی ہے کہ پاکستان میں اس کا وجود ہے یا نہیں، اگر ہے تو وہ کس حد تک ہے، ایک طرف چند پاکستانیوں کے داعش میں شمولیت کی داستانیں تو دوسری طرف چوھدری نثار کے اس بیان کا چرچہ ہے جس میں انہوں نے پاکستان میں داعش کی موجودگی کی تردید کی ہے۔
میرے خیال میں انکی تردید کو دیوانے کی بھڑ نہ سمجھا جائے انہوں نے تردید کسی ٹھوس معلومات کی بنیاد پر کی ہے،میرا اصل موضوع نہ تو چودھری نثار کا بیان ہے اور نہ ہی داعش کی پاکستان میں موجودگی،بلکہ میرا موضوع داعش کا تعارف ، نظریات، افکارات، اور اسکے بعد اس کا مستقبل ہے، داعش کی بنیاد اس وقت پڑی جب القاعدہ کے عراقی راہنما معصب الزرقاوی کو امریکی فوج نے شہید کیا، اس وقت عراق میں القاعدہ کے ایک گروہ نے شعیہ نظریات کی نفی کے ساتھ ساتھ انکے خلاف عسکری کاروائیوں کی بات کی القاعدہ نے اس عنصر کی مخالفت کی اور یہ گروہ القاعدہ سے الگ ہو گیا۔
جہاں تک میری معلومات ہیں شروع شروع میں داعش نے اسلامی نظامِ خلافت کی کوئی با ت نہیںکی تھی ،بس یوں سمجھ لیں کہ داعش شیعہ کے خلاف عسکری طورپر کھڑا ہونے وا لا ایک گروہ تھا،بعد میں داعش نے اسلامی ممالک میں نظام خلافت قائم کرنے کا نعرہ بھی زوروشور کے ساتھ بلند کیا،فقہی اعتبار سے داعش میں اکثریت سلفی مکتبہ فکر کی ہے،سلفی مکتبہ کو پاکستان میں اہلِ حدیث کے نام سے جانا جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ اس مکتبہِ فکر کہ کچھ لوگوں کی داعش میں شمولیت کی خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں ،چند دن پہلےBBC پر جماعة الدعوة اور الہدیٰ انٹرنیشنل کا نام بھی لیا گیا تھا،فقہی اعتبار سے جماعة الدعوة اور الہدیٰ بھی سلفی مکتبہ فکر کے عامل ہیں،جماعة الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید ، اور اس جماعت کے ہفت روزہ اخبار ”جرار” کے چیف ایڈیٹر امیر حمزہ اور مرکزی رہنما عبدالرحمن مکی سمیت دیگر مرکزی رہنما صاف صاف اور کھلے لفظوں میں داعش کے تکفیری اور باطل نظریات کی پرزور مذمت کر چکے ہیں۔
حافظ سعید تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ داعش اور داعش جیسی دیگر تنظیموں کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، جماعة الدعوة کی پوری تاریخ عیاں ہے کہ اس نے کبھی مسلکی بنیاد پر کسی دوسرے مسلک یا تنظیم کے خلاف عسکری کاروائی کی ہے نہ ایسے گروہ ، مسلک ،یا تنظیم کی تائید و نصرت ،بلکہ میری معلومات کے مطابق تو جماعة الدعوة اپنے علاوہ دیگر تنظیموں اور جماعتوں کے نظریات و افکارات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آیا خواء زلزلہ ہو یا سیلاب یا تھر پارکر کی صورت حال جماعة الدعوة کی FIF (فلاح انسانیت فاونڈیشن) پیش پیش نظرآتی ہے،اس سب کے باوجود اگر کوئی ایسا شخص جسکا تعلق کبھی جماعة الدعوة سے رہا ہو تو وہ اپنی کج فہمی اور ناسمجھی کے باعث داعش سے جاملے تو اس سے حافظ سعید یا جماعةالدعوة پر کوئی آنچ نہیں آتی،رہی الہدیٰ کی بات تو اسکا بھی مقصد خواتین کے حلقہ میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہے۔
اس پلیٹ فارم کاکبھی کسی عسکری تنظیم یا گروہ سے کوئی تعلق اس سے پہلے ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی ڈاکٹر ادریس زبیر اور انکی روجہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کا ایسا کوئی بیان سامنے آیا ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ مرکز کی طرف سے داعش کے ساتھ الہدیٰ کی وابستگی ہے،اگر کوئی الہدیٰ سے متعلقہ فرد داعش سے جا ملا ہے تو یہ اسکا ذاتی عمل ہی ہو سکتا ہے،جماعة الدعوة کے کارکنان کی تعداد لاکھوں اور الہدیٰ سے وابستہ لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، ان لاکھوں اور ہزاروں سے چند انگلیوں پر گنے جانے والے افراد کا نام سامنے آ جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے،اب رہی ان لوگوں کی داعش میں شمولیت کی بات جو سلفی مکتبہ فکر کے علاوہ حنفی دیوبندی یا حنفی بریلوی ہیں۔
ان میں سے کسی بھی ذمہ دار تنظیم یا گروہ کے داعش کے ساتھ وابستگی کی خبر نہیں ہے، جیسے حنفی دیوبندی مکتبہ فکر کے جید عالمِ دین مفتی نعیم صاحب اور دیگر زمہ دران نے ،اوربریلوی مکتبہ فکر کے معروف عالمِ دین مفتی منیب الرحمن نے داعش کی مخالفت اور اسکے باطل عقائد و نظریات سے آگاہی دی ہے، اب رہا تحریکِ طالبان پاکستان جیسے خطر ناک اور باطل گرپوں کا مسئلہ جو پاکستان میں عسکری کاروائیاں کرتے رہے ہیں وہ ضرب عضب سے کمر توڑوانے کے بعد اپنے بچائو کے لئے داعش کاا ستعمال کر رہے ہیں،یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ان گروپ میںاکثریت حنفی دیوبندی مکتبہ فکر کے لوگوں کی ہے جبکہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ داعش سلفی مکتبہ فکر کی حامل ہے،ان گرہوں کی مسلکی شدت کی بات کی جائے تو دونوں ہی سوا سیر ہیں ،دونوں ہی کسی دوسرے کے نظریات کو ماننے اور برداشت کرنے کی صفات سے آری ہیں۔
داعش کے بارے میں تو میری تحقیق اتنی وسیع نہیں البتہ تحریک طالبان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ اپنے نظریات سے متصادم سوچ رکھنے والے کو کافر اور مرتد قرار دے کر قتل تک کا فتویٰ دے دیتے ہیں تویہ بات کسی صورت سچ سے خالی نہیں ہو گی ،پاکستان کیساتھ متصادم اور جنگ کی وجہ بھی انکی یہی ہٹ دھرمی بنی،افغانستان سے روس کے نکلنے کے بعد کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو انہی جیسے ہٹ دھرم اور شدت پسند گروہ نے اپنے سے متصادم سوچ رکھنے والی تمام تنظیموں جن میں سلفی مکتبہ فکر اور گل بدین حکمت یار کی تنظیم وغیرہ تھیں نکال باہر کیا،فی زمانہ تو دونوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں اس لئے ایک دوسرے کے نظریات کو ہضم کر نا انکی مجبوری ہے۔
یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے مخالفت پر اتر آئیں گے پھرنہ کسی کو نظامِ خلافت یاد رہے گا اور نہ اس طرح کے دیگر نعرے اور دعوے ،اسکے بعد آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں گے،ان کا یہی عمل داعش کو توڑنے کا باعث بنے گا،اور ا ن شا اللہ یہ بد نیت خارجی پاکستان کے لئے کوئی خطرہ نہیں ،ہمیں ان تکفیری اور کافروں کے کارندوں سے اس وقت ڈرنے کی ضرورت نہیں جب تک اللہ نے ہمیں پاک فوج جیسی نعمت سے نوازا ہوا ہے۔
تحریر: سجاد گل(دردِ جہاں)
dardejahansg@gmail.com
Phon# +92-316-2000009
D-804 5th raod satellite Town Rawalpindi