کچھ دن پہلے ایک تصویر دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں کچھ گاڑیاں داعش کا پرچم لہراتی افغانستان کے مختلف شہروں میں نظر آئیں تو افغانستان کے سابقہ صدر حامد کرزئی کا الجزیرۃ ٹی وی کو دیا گیا انٹرویو یاد آگیا جس میں انہوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں داعش کی سرپرستی کر رہا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ داعش کا افغانستان میں وجود امریکی انٹیلی جنس کی موجودگی میں ہوا۔ امریکی حکومت کو ہمارے سوالات کا جواب دینا ہوگا۔حامد کرزئی نے کہا کہ پہلے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے ارکان زیادہ تھے لیکن اب داعش سے تعلق رکھنے والے افراد سب سے زیادہ ہیں، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ انتہا پسندی کو کیسے قابو کیا جاسکتا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ ہمیں حق پہنچتا ہے کہ ہم امریکا سے سوال پوچھیں کہ امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی کڑی نگرانی اور موجودگی کے باوجود داعش نے کس طرح افغانستان میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔امریکا کو اس کا جواب لازمی دینا چاہیے کیوں اس کا جواب افغانستان کے پاس نہیں بلکہ امریکا کے پاس ہے۔حامد کرزئی نے کہا کہ انہیں شک سے بھی زیادہ یقین ہے کہ داعش کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسلحہ پہنچایا جاتا ہے اور یہ صرف ملک کے ایک حصے میں نہیں بلکہ کئی حصوں میں ہو رہا ہے۔ داعش کو اسلحہ کی فراہمی کی خبریں افغان شہری ہی نہیں بلکہ حکومت میں موجود افراد اور دیہات میں رہنے والے لوگ بھی دے رہے ہیں۔
سابق افغان صدر کا کہنا تھا کہ امریکا افغانستان میں شدت پسندی کوشکست دینے آیا تھا لیکن اس کی نگرانی میں ملک میں شدت پسندی کیسے بڑھ گئی؟ اسے آپ محض اتفاق سمجھیں یا کچھ اور، جن دنوں افغانستان کے سابقہ صدر حامد کرزئی کا یہ انٹرویو سامنے آیا تقریبا انہی دنوں بی بی سی کی ایک رپورٹ بھی منظر عام پر آئی تھی ۔ اس رپورٹ کے مطابق داعش کے حمایتیوں کو شام کے شہر رقع میں شکست کے بعد نکلنے کے لئے محفوظ راستہ فراہم کیا گیا تھا اور یہ راستہ کسی اور نے نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے حمایتی گروپ شام ڈیموکریٹک گروپ نے فراہم کیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق تقریبا ڈھائی سو دہشت گردوں اور ان کے خاندانوں کے تقریبا پینتیس سو افراد کو ایک معاہدے کے تحت رقع سے شام، ترکی اور عراق کے مختلف علاقوں میں جانے کی اجازت دی گئی۔ اس خبر کی کسی نے تردید نہیں کی۔
افغانستاں میں داعش کی سرگرمیاں سب سے پہلے صوبہ ننگہار میں نظر آئیں۔ اس کے بعد یہ اس کے ہمسائے صوبے کنڑ میں منظرعام پر آئے۔
افغانستان میں داعش کے علاقوں کی شناخت کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ 2 محوروں میں آپریشن کر رہے ہیں.
مغربی حصہ: جس میں صوبہ ننگرہار، خوست اور کونڑ و غیرہ شامل ہیں۔
شمال مغربی حصہ: جس میں صوبہ فاریاب اور جوزجان اور سرپل شامل ہیں۔
داعش افغانستان کے شمال میں بھی درزآب، قوش جوزجان، بلچراغ،فاریاب، شہر صیاد، سرپل میں سرگرم ہے۔ اور شیعہ نشین علاقہ میرزاولنگ بھی اس علاقے کے نزدیک ہے۔ آخر داعش کے لوگ افغانستان کے شمالی علاقے میں کیوں اکٹھے اور منظم ہو رہے ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ایک اطلاع کے مطابق اس کا مقصد روس کو نقصان پہنچانا ہے۔ داعش کو روس کی وجہ سے داعش کو شام میں ہزیمت اٹھانا پڑی اور وہ اب روس سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔ لیکن افغانستان اور روس کے درمیان کافی فاصلہ ہے اور اس کے علاوہ ان دونوں ملکوں کے درمیان کئی اور ممالک موجود ہیں۔اس لئے اس مفروضے میں اتنی جان نظر نہیں آتی۔
افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کا ایک اور مقصد خراسان پر قابض ہونا ہے، جس کا تعلق آخرالزمان کے عقیدے سے ہے۔
افغانستان میں سر گرمیوں کا ایک مقصد اس ملک کے شیعہ اور پاکستان اور ایران کو نشانہ بنانا ہے۔خصوصا پاکستان کے صوبہ بلوچستان اس کا خاص ٹارگٹ ہو سکتا ہے۔
داعش کی افغانستان کے شمالی علاقے میں موجودگی کی ایک اور وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ ان علاقوں میں چھپے زیرزمین نایاب خزانے ہیں ۔ یہ علاقے مہنگی دھاتوں سے مالامال ہیں اور یہ بات محض اتفاق نہیں کہ عراق اور شام میں داعش نے جن علاقوں پر قبضہ کیا وہ تیل کی دولت سے مالامال تھے۔ داعش ان علاقوں سے تیل نکالتی تھی اور عالمی منڈی میں فروخت کرتی تھی شام اور عراق میں دستیاب وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اب اس نے افغانستان کا چنائو کیا ہے۔
افغانستان میں داعش کا رسوخ، معاشی بحران، قومی اختلافات، مغربی خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ داعش کے ازبکستان، تاجکستان، قرقیزستان، پاکستان، عراق اور قزاقستان میں سرگرم افراد بھی اب افغانستان پہنچ گئے ہیں اور حزب اسلامی ازبکستان جو پاکستان میں بھی سرگرم تھی داعش سے مل گئی ہے۔داعش، افغانستان میں بھی شام اور عراق کی طرز پر جنگ کر رہی ہے، وہ مختلف افراد کو جذب کرنے کے لیے جہاد النکاح کو بھی رواج دے رہے ہیں۔
افغانستان کے شمالی علاقوں میں ان جنگجوئوں کا مقابلہ آسانی سے کیا جا سکتا تھا۔ان علاقوں میں رشیددوستم کا کافی اثرورسوخ ہے اور اس نے ماضی میں ان علاقوں میں طالبان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن آج کل وہ خود کافی پریشانیوں کا سامنا ہے۔زنا کے ایک معاملے میں ملوث ہونے پر اسے افغانستان سے فرار ہونا پڑا۔ آج کل وہ ترکی میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے کیونکہ وطن واپسی پر اسے گرفتاری کا ڈر ہے۔
اگرچہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے حمایت یافتہ نیٹو کے ہزاروں فوجی موجود ہیں لیکن وہ داعش کے اس چھوٹے سے گروہ کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ شاید وہ اس اثاثے(داعش) کو کسی اور جگہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
داعش افغانستان میں کیا کرتی ہے ۔ ؟روس کو نقصان پہنچاتی ہے یا ایران اور پاکستان اس کے نشانے پر ہیں؟ ایک بات البتہ طے ہے کہ فی الحال امریکہ افغانستان سے جانے والا نہیں۔ وہ افغانستان میں رہے گا۔ کبھی القائدہ اور طالبان کے نام پر تو کبھی داعش کے نام پر۔