تحریر: حبیب اللہ سلفی
پاکستان میں ان دنوں داعش کے پروان چڑھنے کی خبریںعروج پر ہیں۔ کراچی کے بعد اب سیالکوٹ اور لاہور سے گرفتاریاں کی گئی ہیں اور کہاجارہا ہے کہ داعش کا ایک خواتین ونگ بھی یہاں بھی کام کر رہا ہے جو عورتوں اور بچوں کی برین واشنگ کر کے انہیں شام اور عراق بھجوارہا ہے۔میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ پولیس کے پاس متعددلاپتہ خواتین کے اغواء کی ایف آئی آر درج ہوئیں لیکن اب ان میں سے بعض خواتین نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع دی گئی ہے کہ مذکورہ خواتین کو اغواء نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنی مرضی سے کراچی اورگوادر کے راستے ایران اور پھر وہاں سے شام چلی گئی ہیں تاکہ عملی طور پر داعش کیلئے کام کر سکیں۔
ان خواتین میں لاہور میں قائم ایک اسلامی مرکز کی پرنسپل کا نام بھی لیا جاتا ہے جس کے اہل خانہ نے چند ماہ قبل یہ موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں اغواء کر لیا گیا ہے تاہم بعد ازاں مذکورہ خاتون نے کوئٹہ سے ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ وہ شام جارہی ہیں۔ اسی طرح فرحانہ نامی خاتون جو ایف بی آر کے سپرنٹنڈنٹ مہر حامد کی اہلیہ ہیں’ سے متعلق بھی یہی خبریں زیر بحث ہیں۔ میڈیا نے ان دنوں یہ ایشو بہت زیادہ گرم کر رکھا ہے اور داعش کی پاکستان میں موجودگی کو ضرورت سے زیادہ کوریج دے کر نہ جانے کیا مقاصد حاصل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں؟۔ پاکستانی وزارت خارجہ واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ پاکستان میں انفرادی طور پر توکچھ لوگ داعش کے نظریات کے ہمدرد اور ہمنوا ہو سکتے ہیں لیکن بحیثیت تنظیم اس کا یہاں وجود نہیں ہے
لیکن بعض نیوز چینلز پرچند ایک تجزیہ نگار ایسے تجزیے وتبصرے کرتے دکھائی دیتے ہیں جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ڈسکہ سے گرفتار داعش کے اہلکاروں کے حوالہ سے کہا جارہا ہے کہ ان میں سے دو تین ماضی میں جماعت الدعوة سے وابستہ رہے ہیں ۔اگرچہ میڈیا رپورٹس میں ان کے متعلق بھی یہی کہا گیا ہے کہ جب مذکورہ افراد نے دیکھا کہ یہ جماعت تو تشدد پسند رویے اورنظریات کی قائل نہیں ہے تو وہ اسے خیرباد کہہ گئے تھے لیکن پروپیگنڈا کرنے والوں کو کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے۔ بس اس خبر کامیڈیا پر آنا تھا کہ وطن عزیز پاکستان میں بیٹھ کر بھارتی و امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے بعض نام نہاد دانشوروں کو موقع مل گیا اور انہوں نے پردہ سکرین پریہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ سب تنظیمیں ایک جیسی ہیںاوران سب کیخلاف کاروائی ہونی چاہیے۔حقیقت میں یہ لوگ ہیں جو ڈالروں کی خاطر پاکستان میں بیٹھ کر فتنہ و فساد کے بیج بو رہے اور دشمن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں خود کش حملے ہوں’ بم دھماکے یادہشت گردی کی وارداتیں’ جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید نے سب سے پہلے ان کیخلاف آواز اٹھائی اور اسلامی شریعت کی روشنی میں انہیں حرام قرار دیاہے۔اس وقت پاکستان میں تکفیر اور خارجیت کیخلاف سب سے موثر آواز جماعةالدعوة کی ہے جس کے قائدین اورعلماء کرام تحریر و تقریر کے ذریعہ یہودیوں کے پیدا کردہ اس فتنہ کیخلاف زوردار مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور پاکستان میں اس کے زبردست اثرات نظر آتے ہیں۔حافظ محمد سعیدچونکہ بیرونی سازشوں اور عالمی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں
اس لئے آنے والے دنوں میں فتنہ تکفیر کی صورت میں درپیش آنے والے خطرہ کوانہوں نے بہت دیر پہلے بھانپ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جماعةالدعوة نے تنظیمی سطح پر اس حوالہ سے بہت کام کیا اورمسئلہ تکفیر اور اس کے اصول و ضوابط’ مسلمانوں کو کافر قرار دینے کا فتنہ’حرمت مسلم اور مسئلہ تکفیر’فتنہ خوارج او تکفیرکے اسباب، علامات اور حکم جیسی مختلف کتابیں شائع کر کے لاکھوں کی تعداد میں اپنی جماعت کے کارکنان اور پورے پاکستان میں پھیلائی گئیں تاکہ نوجوان نسل کو اس شر سے بچایا جا سکے۔اسی طرح جماعةالدعوة کے ادارہ دارالاندلس نے خطبات قادسیہ کے نام سے ایک خوبصورت کتاب شائع کی ہے جس میںحافظ محمد سعید کے صرف فتنہ تکفیر سے متعلق خطبات کو قلمبند کیا گیا ہے ۔اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ تکفیر اور خارجیت کا یہ فتنہ کس قدر خوفناک ہے اور سلف صالحین نے اس سے نمٹنے کیلئے کیا طریقہ اختیا رکیا تھا؟بہرحال بھارت، امریکہ اور اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان میں جو جماعتیں مسلمانوں کے قتل عام کے فتوے دیکر قتل و غارت گری کرنے والے تکفیری گروہوں کے گمراہ کن نظریات کا رد کر رہی ہیں انہیں بھی پاکستانی معاشرے میں متنازعہ بنایا جائے تاکہ مسلمانوں کو باہم لڑانے اوردست و گریباں کرنے کے ایجنڈوں کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ اب تو حساس اداروں کی یہ رپورٹ بھی منظر عام پر آگئی ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد پاکستان میں داعش کو منظم کرنے کیلئے فنڈنگ کر رہی ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” جو موساد سے مل کر افغانستان میں بھی داعش کیلئے کام کر رہی ہے یہاں بھی اس کا مکمل ساتھ دے رہی ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بھارت سرحدی علاقوں میں داعش کیلئے کیمپ بنا رہا ہے جہاں دہشت گردوں کو ٹریننگ دیکر پاکستان بھیجا جائے گا۔ ان ساری رپورٹوں سے کھل کر واضح ہورہا ہے کہ جماعةالدعوة کے کارکنان کی داعش میں شامل ہونے کی افواہوں کے پیچھے کون ہے؟ اور منظم منصوبہ بندی کے تحت اسے میڈیا پر کیوں اچھالنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ افسوس اس بات کا ہے کہ میڈیا کے بعض اداروں میں بیٹھے انڈیا و امریکہ کے تنخواہ دار ملکی و قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر ایسے پروپیگنڈا کو ہوا دینا شروع کر دیتے ہیں جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس خطہ میں داعش کے پروان چڑھنے میں انڈیا کی خاص طور پر بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ پاکستان میں جو لوگ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ کیخلاف اور مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں ‘ ان کا تعلق کسی طرح تکفیری گروہوں سے جوڑاجائے تاکہ عوام میں شکوک و شبہات پھیلا کر ان کی ہمدردیاں ختم کی جاسکیں۔یہ بہت بڑی سازش ہے جو’ ان دنوں کی جارہی ہے۔ یہ وقت آنکھیں کھلی رکھ کر دشمن کی سازشیں ناکام بنانے کا ہے۔تکفیر اور خارجیت کو پھیلنے سے روکنے کیلئے پہلے حکومت اور پھر علما ء کرام اس سلسلہ میںسب سے زیادہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
حکومتی ذمہ داران کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان فتنوںسے متعلق قرآن وسنت کی روشنی میں آگاہی حاصل کریں اوردیکھیں کہ سلف صالحین نے ان پر کیسے قابو پایا تھا؟ اسی طرح علماء کرام کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو سمجھائیں کہ کلمہ پڑھنے والوں پر کفر کے فتوے لگا کر قتل و غارت گری کرنا اور اسے باعث اجر سمجھنا جائز نہیں ہے۔اس حوالہ سے حال ہی میں سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیز کی طرف سے داعش کیخلاف جاری کیا جانے والا فتویٰ بہت اہمیت کاحامل ہے۔ پاکستان سمیت پوری مسلم امہ کے علماء کرام اس فتویٰ کی تائید و حمایت کرتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ساری دنیا میں اس پیغام کو عا م کیا جائے کہ اسلام میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اسے فساد فی الارض اور دہشت گردی قرار دیا گیا ہے۔اسلامی شریعت نے کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو کافر اور منافق قرار دے۔یہ اتناحساس مسئلہ ہے کہ نبی مکرم ۖ نے فرمایا جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر کہتا ہے تو دونوںمیں سے ایک کافر ہو جاتا ہے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلم معاشروںمیں یہ چیزیں اب بازیچہ اطفال بن چکی ہیں ۔ کم علم اورکم عمر لوگ مسلمانوں کے قتل کے فتوے دے رہے ہیں
تنظیمیں بنا کر معاشروں میں فساد پھیلایا جارہا ہے۔ احادیث کی کتب میں موجود ہے کہ نبی اکرم ۖ نے آنے والے وقت میں اپنی امت کو درپیش فتنوںکی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھاکہ ایک وقت آئے گا جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کا قتل کرے گااور قتل کرنے والے کو معلوم ہو گا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے اور نا ہی قتل ہونے والے کو معلوم ہو گا کہ اسے کیوں قتل کیا جارہا ہے؟آج ہم مسلم ملکوں و معاشروں کا جائزہ لیں تو ہمیں یہی صورتحا ل نظر آتی ہے۔خلافت کے نام پر مسلمانوں کا خون بہانے والے ہی اسلام اور خلافت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔بیرونی قوتیں مسلمانوں میں قتل و خونریزی پھیلا کر مسلم امہ کی مرکزیت کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ ہمیں ان سازشوں کو ناکام بنانا ہے لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہو سکے گا جب ہم ان فتنوں سے اسی طرح نمٹنے کی کوشش کریں گے جس طرح اللہ کے رسول ۖ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرت سے ہمیں سبق ملتا ہے۔
تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005