اسلام آباد (یس اردو نیوز) زندہ قومیں اپنے محسنوں کی یاد منایا کرتی ہیں اور اگر کوئی محسن ایسا ہو جس کا احسان صرف مسلمانوں پر نہیں، بلکہ پوری انسانیت پر ہو تو ان کی یاد منانا عقلِ سلیم اور فطرت ِ انسانی کا تقاضا ہے اور اگر یہ سیمینار یہ ذکر امام حسین ؑ ہمیں انکی اس آفاقی تحریک کے ساتھ منسلک اور متمسک رہنے کا ذریعہ بنیں تو انکی ارزش اور قیمت مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ عزاداری کا مقصد صرف غم حسین (ع) میں گریہ اور آنسو بہانا نہیں ہے بلکہ جب ایک عزادار صفِ عزا میں شریک ہو جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس مقصد سے ہماہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے جس مقصد کے لیے سید الشھداء(ع) نے اتنی عظیم قربانی دی ہے۔
لہذا عزاداری اور ان مجالس کے انعقاد کا مقصدصرف گریہ اور آہ و زاری نہیں ہے، بلکہ عزاداری کا مقصد یہ ہے کہ ان مجالس کے ذریعہ مکتب ِ اہل بیت (ع)کو زندہ رکھا جائے۔
روایت ہے کہ ایک دن امام صادق(ع) نے اپنے صحابی فضیل سے پوچھا: اے فضیل! کیا تم لوگ ہمارے جد بزرگوار حسین ابن علی(ع)کے لئے مجالس عزا کا انعقاد اور پھر ان مجالس میں ان کی مصیبت کا ذکر کرتے ہو؟ فضیل نے کہا: جی ہاں مولا! ہماری جانیں آپ پر فدا ہوں’ہم ایسی مجالس منعقد کرتے رہتے ہیں۔ امام (ع) نے فرمایا: ہم ان مجالس کو پسند کرتے ہیں۔ رَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَحْیَا أَمْرَنَا، اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرےجو ہمارے امر (مکتب) کو زندہ کرے۔ (وسایل الشیعہ، حدیث نمبر ۱۵۵۳۲)
امام خمینی (رہ) اکثر فرمایا کرتے تھے کہ سید الشھداء اباعبداللہ الحسین (ع) کے غم میں بہنے والے اشکوں کی ارزش اور قیمت کم نہیں ہے بلکہ یہ ظلم و بربریت کے خلاف ایک تحریک ہے “ہمارا (یوں) جمع ہونا اور گریہ کرنا ایک سطحی عمل نہیں ہے، بلکہ ہم سیاسی گریہ کرنے والی قوم ہیں’ ہم وہ قوم ہیں جو ان اشکوں سے سیلاب بنا کر اسلام کے خلاف کھڑی ہونے والی رکاوٹوں کو پاش پاش کرتی ہے۔” (صحیفہ نور۔ ج ٨۔ ص ٢٩)
کربلا کی یہ تحریک ایک عالمی اور آفاقی تحریک ہے، کیوں کہ امام حسین (ع) نے پوری انسانیت کو بیداری اور باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا درس دیا تھا اور فرمایا تھا کہ “لعین نے مجھے شہادت اور بیعت میں سے کسی ایک چیز کے انتخاب میں مخیر کر رکھا ہے، لیکن ” هَيْهَاتَ مِنِّا الذِّلَّةُ ” زلت ہم (اہل بیت (ع)) سے بہت دور ہے” (موسوعہ کلمات الامام الحسین، ص ۴۲۳) اور فرمایا: ” إِنِّيْ لا أَرَيَ الْمَوْتَ إِلَّا سَعَادَةً وَالحَياةَ مَعَ الظّالِمِينَ إِلّا بَرَما ” میں راہ خدا میں شہادت کو اپنے لیے سعادت اور زندہ رہ کر ظالموں کے ساتھ جینے کو اپنے لیے ننگ و عار سمجھتا ہوں۔ (مناقب، ابن شهر آشوب،ج۴، ص۶۸)
اور جب لعین نے بیعت کا مطالبہ کیا تو امام (ع) نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا تھا کہ میں تو حسین بن علی ہوں، میری رگوں میں تو علی(ع) کا خون دوڑ رہا ہے، میرا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن یاد رکھ ” مِثْلِی لَا یُبَایِعُ مِثْلَه ” مجھ جیسا بھی اس ( یزیدلعنہ)جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا اور واضح کیا کہ اے ظالم! تو میری بیعت پر اصرار مت کر، کیونکہ یہ سر کٹ تو سکتا ہے لیکن جھک نہیں سکتا۔
سجدے میں سر جھکا ہوا، نیزے پہ سر بلند
اقرار بھی کمال ہے، انکار بھی کمال
امام حسین (ع) نے رہتی دنیا تک انسانوں کو حریت اور آزادی کا درس دیا اور انہیں خبردار کرایا کہ اگر کہیں عزت و حمیت کا مسئلہ ہو، اگر کہیں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کی بات ہو تو ڈرو مت، اگے بڑھو، باطل کے مقابلے میں سیسہ پلائی فولاد کی مانند ڈٹ جاؤ اور ظلم و ستم کی زنجیریں توڑ ڈالو چاہے اس راہ میں تمھیں اپنی جان، مال اور سب کچھ کیوں قربان نہ کرنا پڑے اور آج دنیا بھر میں آزادی کی جو تحریکیں نمودار ہو رہی ہیں انہوں نے یہ درس کربلا اور عاشورا سےلیا ہے۔
ظالم کے سامنے نہ جھکائے جو اپنا سر
سمجھو کہ اس کے ذہن کا مالک حسین (ع) ہے
یہی تو وجہ ہے کہ آج نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا کا ہر آزاد فکر انسان حسین (ع) کا عاشق، گرویدہ اور مداح ہے۔
این حسین (ع) کیست کہ عالم ھمہ دیوانہ اوست
این چہ شمعی است کہ عالم ھمہ پروانہ اوست
وقت کے یزید (لعنہ) نے تو حسین (ع) والوں کی آواز دبانے کی کوشش کی تھی، تاہم وہ خود تو صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود حسین (ع) کی یاد آج بھی زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گی۔
میری نظر میں کربلا والوں کی یاد کی بقاء کا راز یہ ہے کہ دربارِ شام میں علی(ع) کی بہادر اور شیردل بیٹی اور حسین (ع) کی تحریک کی محافظ و پاسبان بی بی زینب (س) نے شام میں یزید (لعنہ) کو چیلنج دی تھی، جب اہل حرم کے سامنے یزید (لعنہ) اقتدار کے نشے میں مست تخت پر بیٹھا تھا، تو سیدہ (س) نے اپنے تاریخی خطبہ دیا اور فرمانے لگی: كِدْ كَيْدَكَ وَ اجْهَدْ جُهْدَكَ فَوَ اللہ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا،اے لعین! تو جتنا مکر و فریب کر سکتے ہو کر لو، جتنی کوشش کر سکتے ہو کرلو، پس اللہ کی قسم! تو ہمارا ذکر نہیں مٹا سکتا (لہوف، ص ۱۸۱ تا ۱۸۶، نفس المہموم، ص ۲۵۳ تا ۲۵۶، بحارالانوار جلد۴۵، ص ۱۳۳- ۱۳۵)
یہ زینب کبریٰ (س) کی دعاؤں کا اثر ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی کربلا والوں کی یاد ابھی زندہ ہے اور انکی یہ تحریک بڑی تیزی سے پوری دنیا میں پھیلتی جا رہی ہے، یہ کوئی معجزہ سے کم نہیں کہ آج افریقا کے جنگلوں میں بھی حسین (ع) حسین (ع) کی صدائیں گونج رہی ہیں۔
ذرا بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین (ع)