تحریر: ملک نذیر اعوان
ابھی تو ایسا محسوس ہو رہا ہے۔ہمارے ملک میں کرپشن کا بازار اس حد تک طول پکڑ گیا ہے کہ جس کا دل چاہے اس کو لوٹ لے انسانی ہوس اتنی بڑھ چکی ہے۔مال و دولت کی لوٹ کھسوٹ نے ہمارے ملک کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ہر آدمی جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے۔ان عہدوں سے غلط فائدہ اٹھا کر حرام سے کمائی ہوئی دولت اکٹھی کر رکھی ہے۔چونکہ ہمارے ملک کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں پر امیروں کا نظام ہے۔
اس ملک میں صرف قانون غریب آدمی کے لیے ہے۔امیر بڑ ے سے بڑا جرم بھی کرے تو اس کے لیے چھوٹ ہے اس کے برعکس اگرغریب آدمی کوئی معمولی مسٹیک کرے تو اس کو قانون کے شکنجے میںپیسا جاتا ہے۔مگر بڑے لوگ کسی قتل کے کیس میں بھی آجائیںتو قانون حرکت میں نہیں آتا ہے۔یہاں تک کہ ان کے خلاف (ایف آئی آر) تک نہیں کاٹی جاتی ہے۔
حالانکہ اسلام میں تو سب برابر ہیں۔جس معاشرے میں جزا سزا کا تعین نہ ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔اسلام میں امیر غریب کے لیے ایک ہی قانون ہے۔محترم قارئین آپ نے سماعت کیا ہوگا،،اس کی بہترین مثال ہماری زندگی میں موجود ہے۔ایک موقع پررحمت دو عالم ہادی برحق نور مجسم حضور سرور کائناتۖ تشریف فرما تھے۔
آپ کی خدمت اقدس میںچوری کے الزام میںبنت فاطمہ کے نام سے ایک عورت کو لایا گیاتو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری پیاری لخت جگر بیٹی فاطمہ بھی ایسا جرم کرتی تو اس کے لیے بھی ہاتھ کا ٹنے کا حکم صادر فرماتا۔عدل اس کو کہتے ہیں۔پوری دنیا میں کرپشن کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں۔لیکن ان ملکوںمیںسختی سے عمل درآمد ہوتا ہے کئی ملکوں کے صدر ،وزیراعظم،وزراء کرپشن کے جرائم میں ملوث ہیں مگر سزا بھگت رہے ہیں مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس کا قانون نہیں ہے۔
غریب طبقے کو کھنڈی چھری سے کاٹا جارہا ہے۔وی آئی پی کلچر برقرار ہے۔امیروں کے بچے جو مرضی کر لیں ان پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھاتا ۔ان کے لیے کوئی ضابطہ قانون نہیں ہے۔پچھلی حکومت ہو چاہے موجودہ حکومت ہو یا جس پارٹی سے تعلق ہو ا ان میں چند کرپٹ لوگ ہوتے ہیں۔جو شریف لوگوں کے لیے بھی بد نامی کا باعث بنتے ہیں۔ایسے لوگوں کو گرفتار کرنا چاہئیے۔پاکستان کسی جاگیردار کی وراثت نہیں۔کہ جو چاہے اس کو لوٹ لے،اور یہی وجہ ہے آج کرپشن اس معاشرے کی رگوں میں بد بودار لہو کی طرح دوڑنے لگی۔اور بلاشبہ کراچی میں رینجر کا کامیاب آپریشن رہا جب ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کا مرحلہ آیا ہے۔تو پی پی کے پائوں تلے زمین نکل جاتی ہے۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صاحب کی گرج سننے والی تھی۔زرداری صاحب کے خلاف جو آواز اٹھائے گا اس کے ساتھ جنگ ہوگی۔اس ملک میں کرپشن کی تو انتہا ہے۔چند دن پہلے بلو چستان کے سابقہ وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کے سیکٹری سے سونے اور نوٹوں کے باکس وصول ہوئے ہیں آپ خود سوچیں پی اے کی یہ حالت ہے۔تو بڑے لوگوں کیا ہوگا۔لیکن ہمارے معاشرے میں کوئی قانون نہیں ہے۔
ہمیں اپنے اسلاف سے سبق سیکھینا چاہیئے،جیسا کہ آپ نے حضرت عمر فاروق کاواقع سماعت کیا ہو گا۔آپ رات کو گلیوں میں گشت کرتے تھے کہ بھوکا تو نہیں سو گیا۔اچانک آپ کا ایک ایسے گھر سے گزر ہوا اندر سے بچوں کے رونے کی آواز آرہی تھی۔آپ نے دروازے پر دستک دی تو معلوم ہوا کہ بچے بھوک کی وجہ سے رو رہے ہیں۔اسی وقت آپ ان کے لیے گھر سے کھانے پینے کا سامان لے کر آئے۔
اس پر بچوں کی ماں نے کہا کاش حاکم وقت عمر بھی آپ کی طرح ایسا عدل کرنے والے ہوتے،تو آپ نے مسکرایا اور فرمایا کہ عمر میں ہی ہوں۔اس لیے اگر ہم اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنی ہوگی۔آ خر میں میری یہ دعا ہے کہ اللہ پاک اس ملک کو کرپشن جیسی موزی مرض سے نجات دلائے ۔۔۔آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔
تحریر: ملک نذیر اعوان (خوشاب)