تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی
آج عیدالفطرکادن ہے ۔عیدکی اصل مسرتیں تودوسروں کے چہروں پر خوشیوں کے پھول سجاناہے ۔لفظ عید “عود “سے نکلاہے جسکے معنی لوٹ آنے کے ہیں عیدکادن چونکہ ہرسال لوٹ کرآتاہے اس لئے اسکوعیدکہتے ہیں یہ اسلا م کے ماننے والوں کے لئے شادمانی کادن ہوتاہے ۔عیدالفطرکادن رمضان المبارک کے مہینہ کے فوراً بعدیکم شوال المکرم کوآتاہے ۔رحمتوں اوربرکتوںسے بھرے ہوئے مہینے رمضان المبارک کے آخری دن کی شام کو عیدکاچاندنظرآتاہے جس سے مومنوں کوبے حدخوشی ہوتی ہے کہ رمضان المبارک کے ر وزے پایہ تکمیل تک پہنچے اوران کی ماہ رمضان کے روزوں کی عبادت بارگاہ رب العزت میں قبول ہوئی ۔ ایک مہینہ کی روزہ درانہ زندگی گزارنے کے بعدمسلمان آزادی کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں۔
اللہ رب العالمین کاشکربجالاتے ہوئے اجتماعی طورپردورکعت نمازعیدالفطر اداکرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں خوشی مناتے ہیں صدقہ خیرات کے ذریعے غریبوں کی مددکرتے ہیں۔یہ سب چیزیں عیدکی روح کوبتاتی ہیں ۔عیدکی اصل روح اللہ کویادکرناہے ۔اپنی خوشیوں کے ساتھ لوگوں کی خوشیوں میں شریک ہوناہے ۔اپنے مقصدکوحاصل کرتے ہوئے دوسرو ں کے حقوق کواداکرناہے ۔رمضان المبارک کامہینہ گویاتیاری اوراحتساب کامہینہ تھا۔اس کے بعدعیدکے دن گویانئے عزم اورنئے شعورکے ساتھ زندگی کے آغازکادن ہے ۔عیدکادن دوبارہ نئے حوصلوں کے ساتھ مستقبل کی طرف اپنے سفرکے آغازکرنے کادن ہے۔
روزہ ایک اعتبارسے سمٹنے کالمحہ تھااورازسرِنوپھیلنے اورآگے بڑھنے کالمحہ تھا۔روزہ میں آدمی دنیاسے اوردنیاکی چیزوں سے ایک لمحہ کے لئے کٹ گیاتھا۔حتیٰ کہ انسان نے اپنی فطری ضرورتوں تک پابندی لگادی تھی ۔یہ دراصل تیاری کاوقفہ تھا۔اس کامقصدیہ تھاکہ وہ باہردیکھنے کی بجائے اپنے اندرکی طرف دھیان دے ۔اوراپنے آپ میں وہ ضروری اوصاف پیداکرے جوزندگی کی جدوجہدکے دوران اس کے لئے ضروری ہیں ۔جن کے بغیروہ کاروبارحیات میں مفیدطورپراپناحصہ ادانہیں کرسکتا۔مثلاًصبروبرداشت ،اپنی واجبی حدکے اندررہنا،منفی اثرات سے اپنے آپ کوبچانااس قسم کاایک پرمشقت مہینہ گزارکروہ دوبارہ زندگی کے میدان میں واپس آیاہے ۔اورعیدکے تہوارکی صورت میں وہ اپنی زندگی کے اس نئے دورکاافتتاح کررہاہے۔
اس طرح عیدکادن مسلمانوں کے لئے آغازِحیات کادن ہے۔روزہ نے آدمی کے اندرجواعلیٰ صفات پیداکی ہیں اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ اب وہ سماج کازیادہ بہترممبربن جاتاہے ۔اب وہ اپنے لئے بھی اوردوسروں کے لئے بھی پہلے سے بہترانسان ہوتاہے ۔روزہ میں آدمی نے بھوک،پیاس برداشت کی تھی ۔اب باہرآکروہ لوگوں کی طرف سے پیش آنیوالی ناخوشگواریوں کوبرداشت کرتاہے۔روزہ میں اس نے اپنے سونے اورجاگنے کے معمولات کوبدلاتھا۔اب وہ وسیع ترانسانی مفادکے لئے اپنی خواہشوں کوقربان کرتاہے روزہ میں اس نے عام دنوں سے زیادہ خرچ کیاتھا۔اب باہرآکروہ اپنے واقعی حق سے زیادہ لوگوں کودینے کی کوشش کرتاہے۔
روزہ میں وہ بندوں سے کٹ کراللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہواتھا۔اب باہرآکروہ سطحی چیزوں میں الجھنے کے بجائے بلندمقصدکے لئے متحرک ہوتاہے ۔روزہ میں وہ اپنی خواہش کوروکنے پرراضی ہواتھا۔اب باہرکی دنیامیں یہ کوشش کرتاہے کہ وہ اپنے حقوق سے زیادہ اپنی ذمہ داریاں پرنظررکھنے والابن جائے۔روزہ سال کے ایک مہینہ کامعاملہ تھا۔توعیدسال کے گیارہ مہینوں کی علامت ہے ۔روزہ میں صبر،عبادت،تلاوت قرآن اور ذکرالٰہی کے مشاغل تھے ۔اب عیدسے جدوجہدحیات کامرحلہ شروع ہوتاہے روزہ اگرانفرادی سطح پرزندگی کاتجربہ تھاتوعیداجتماعی سطح پرزندگی میں شریک ہوناہے ۔روزہ اگراپنے آپ کواللہ کے نورسے منورکرنے کاوقفہ تھا۔توعیدگویاساری دنیامیں اس روشنی کوپھیلانے کااقدام ہے۔روزہ اگررات کی تنہائیوں کاعمل تھا۔توعید دن کے ہنگاموں کی طرف صحت مندپیش قدم ہے۔
روزہ جس طرح محض بھوک،پیاس نہیں۔اسی طرح عیدمحض کھیل تماشے کانام نہیں ۔دونوں کے پیچھے گہری معنویت چھپی ہوئی ہے ۔روزہ وقتی طورپرعالم مادی سے کٹنااورعیددوبارہ عالم مادی میں واپس آجاناہے ۔روزہ اللہ سے قربت حاصل کرنے کی کوشش ہے اورعیداس زیادہ نئے بہترسال کاآغازہے ۔جوروزہ کے بعدروزہ داروں کے لئے مقدرکیاگیاہے ۔عیددراصل نئی زندگی شروع کرنے کادن ہے ۔عیدکاپیغام ہے کہ مسلمان ایمانی قوت اورنئے امکانات کی روشنی میں ازسرنوزندگی کی جدوجہدمیں داخل ہوں ۔ان کاسینہ اللہ تعالیٰ کے نورسے روشن ہومسجدیں اللہ کے ذکرسے آبادہوں۔ان کے گھرتواضع کے گھربن جائیں۔
سارے مسلمان آپس میں متحدہوکروہ جدوجہدکریں جس کے نتیجے میں انہیں دنیامیں اللہ کی نصرت اورآخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کے طورپرجنت ملے ۔عیدکی اصل خوشی تویہی ہے کہ انسان کوبقائے دوام حاصل ہوجائے اسکی آخرت سنورجائے اسکی عبادت وریاضت اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول ہوجائے اسکی زندگی کاہرلمحہ اللہ اوراسکے حبیب ۖ کی اطاعت میں گزرے تاکہ اللہ پاک کی خوشنودی حاصل ہوجب وہ دنیا سے جائے توصاحب ایمان جائے قبرکے سوال وجواب میں آسانی ہوقبرمیں مثل ِجنت راحت نصیب ہوپھریومِ حساب کواسکی نجات ہو۔اللہ رب العزت اپنی پاک کتاب قرآن مجیدفرقان حمیدمیں ارشادفرماتاہے ۔ترجمہ!”اوراس لئے کہ تم گنتی پوری کرو۔ا وراللہ کی بڑائی بولو۔ اس پرکہ اس نے تمہیں ہدایت کی اورکہیں تم حق گزارہو”۔(پارہ نمبر2سورة البقرہ)اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی خوشی اورفرحت کے لئے سال میں دواہم دن مقررکئے ہیں جن میں سے ایک عیدالاضحی اوردوسراعیدالفطرکادن ہے۔
آقاۖنے پہلی عیدالفطردوہجری2 میں ادافرمائی پھراسے کبھی ترک نہ کیااس لئے یہ سنت مئوکدہ ہے ۔ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ حضورۖجب مدینہ منورہ تشریف لائے تو(دیکھاکہ) وہاںکے لوگ دودن کھیل تماشے میں گزارتے تھے حضورنبی کریمۖ نے دریافت فرمایا کہ یہ دن کیاہیں ؟انہوں نے کہاکہ ہم ایام جاہلیت میں ان دودنوں میں کھیل تماشے کیاکرتے تھے رسول ۖنے فرمایا “اللہ تعالیٰ نے ان ایام کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتردو ایام یوم الاضحی اوریوم الفطرعطافرمائے ہیں ۔(ابودائودالسنن کتاب الصلاة باب صلاة العیدین)حدیث پاک میں ہے کہ جوشخص ماہ رمضان المبارک میں دن کوروزہ رکھے رات کو(قیام )نوافل اداکرے اور عیدکے دن صدقہ فطراداکرکے عید گاہ میں جائے توعیدگاہ سے واپس ہونے تک اس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
انسان کے لئے ہروہ دن عیدکادن ہے جس دن انسان نے کوئی گناہ نہ کیاہو۔ذکرہے کہ عیدکے دن ایک آدمی حضرت علی المرتضی شیرخدا کی خدمت میں حاضرہوااسوقت آپ خشک روٹی کھارہے تھے اس شخص نے عرض کیاکہ آج توعیدکادن ہے اورآپ سوکھی روٹی چبارہے ہیں آپ نے فرمایاکہ آج عیدان لوگوں کی ہے جنکے روزے اللہ پاک کی بارگاہ میں قبول ہوئے اورانکی کوشش مشکورہوئی اوراللہ تعالیٰ نے انکے گناہوں کوبخش دیااورہماری عیدآج بھی ہے اورکل بھی ہماری عیدہے اوراس دن بھی ہماری عیدہے جس دن ہم کوئی گناہ نہ کریں ۔اسلئے ہرعقلمندآدمی کولازم ہے کہ وہ اپنی ظاہری آرائش کونہ دیکھے اوراسکاپابندنہ ہوجائے بلکہ عیدکے دن عبرت پکڑے اورآخرت کی فکرکرے اورعیدکوقیامت کانمونہ سمجھے ۔ عیدکوقیامت کانمونہ سمجھنے کامطلب بھی یہی ہے کہ انسان کے دل میں خوف خداپیداہو۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضورۖنے فرمایاکہ رمضان المبارک کی آخری شب میں اس امت کی مغفرت ہوتی ہے صحابہ کرام نے عرض کیا!یارسول اللہ ۖ وہ شب قدرہے ؟آقاۖنے فرمایانہیں بلکہ کام کرنیوالے کواسوقت پوری مزدوری دی جاتی ہے جبکہ وہ کام پوراکرلیتاہے ۔(مسنداحمد)۔
اللہ پاک اوراسکے حبیب ۖکی رضاکے لئے انسان ماہِ رمضان میںدن کو روزہ رکھتاہے اوررات کوقیام کرتاہے ۔دن بھی اللہ پاک کی رضامیں اوررات بھی اللہ پاک کی عبادت میں گزارتاہے ۔جب ماہِ رمضان ختم ہوتاہے توانسان کے گناہ بھی معاف کردیئے جاتے ہیں اوراسے بطورانعام واکرام عیدالفطرعطاکی جاتی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیںکہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں کی جانے والی دعاردنہیں ہوتی ١۔شب جمعہ ٢۔ رجب کی پہلی رات ٣۔ شعبان کی پندرہویں شب ٤۔ عیدالفطرکی رات ٥۔ عیدالاضحی کی رات(بیہقی)حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖنے فرمایااللہ تعالیٰ اس شخص کوجس نے ماہ رمضان میں روزے رکھے عیدالفطرکی رات میں پوراپورااجرفرمادیتاہے اورعیدکی صبح فرشتوں کوحکم دیتاہے کہ زمین پرجائواورہرگلی کوچہ اوربازارمیں اعلان کردو(اس آوازکوجن وانس کے علاوہ سب مخلوق سنتی ہے )کہ آقائے دوجہاں ۖکے امتیو!اپنے رب کی طرف بڑھووہ تمہاری تھوڑی نمازکوقبول کرکے بڑااجرعطا فرماتاہے اوربڑے بڑے گناہوں کوبخش دیتاہے پھرجب لوگ عیدگاہ روانہ ہوجاتے ہیں اوروہاں سے فارغ ہوکردعامانگتے ہیں تواللہ تعالیٰ اسوقت کسی دعااورکسی حاجت کوردنہیں فرماتااورکوئی ایساگناہ نہیں بچتاجسکومعاف نہ کرے۔لوگ اپنے گھروں کومغفورہوکرلوٹتے ہیں۔
حضورعلیہ الصّلوٰة والسّلام کارشادپاک ہے کہ عیدکے روزاللہ تعالیٰ زمین پرکچھ فرشتوں کانزول کرتاہے جویہ نداکرتے ہیں !اے محمدۖ کے امتیو!چلواوراپنے اس پروردگارکے حضورمیں آئوجولازوال بخشتاہے تھوڑے سے تھوڑانیک عمل بھی قبول فرماتاہے اوربڑے سے بڑا گناہ معاف کردیتاہے پھرجب سب لوگ میدان عیدگاہ میں نمازکے لئے جمع ہوتے ہیں تواللہ تعالیٰ خوش ہوکرفرشتوں سے فرماتاہے اے میرے فرشتو !تم نے دیکھاکہ امت محمدیہ ۖپرمیں نے رمضان کے روزے فرض کئے تھے انہوںنے مہینہ بھرکے روزے رکھے مسجدوںکوآباد کیامیرے کلام پاک کی تلاوت کی اپنی خواہشوںکوروکااوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کی اپنے مال کی زکوٰة اداکی اوراب ادب سے اظہار تشکرکے لئے میری بارگاہ میں حاضرہیں میں انکوبہشت میں انکے اعمال کابدلہ دوںگاپھراللہ پاک ارشادفرماتاہے اے محمدۖکے امتیو!جوچاہومانگومجھے اپنے عزت وجلال کی قسم اس موقع پرمجھ سے جو مانگوگے میں دوںگااورتم عیدگاہ سے پاک وصاف ہوکرنکلوگے تم مجھ سے خوش ہواورمیں تم سے راضی ہوں یہ ارشادات سن کر ملائکہ خوش ہوتے ہیں اورامت محمدیہۖ کوبشارت دیتے ہیں ۔(تذکرة الواعظین)۔
حضرت ابن عباس کی روایت کردہ حدیث پاک میںہے کہ شب عیدالفطرکانام شب جائزہ یعنی انعام کی رات رکھاگیااورعیدالفطرکی صبح تمام شہروں کے کوچہ وبازارمیں فرشتے پھیل جاتے ہیں اوراعلان کرتے ہیں ،جسکوجن وانس کے سواتمام مخلوق سنتی ہے کہ اے محمدۖکی امت!رب کریم کی طرف چلوتاکہ وہ تم کوثواب عظیم عطافرمائے اورتمہارے بڑے بڑے گناہوں کوبخش دے لوگ عیدگاہ کونکل جاتے ہیں تواللہ پاک فرشتوں سے فرماتاہے اے میرے فرشتو!فرشتے لبیک کہتے ہوئے حاضرہوجاتے ہیں اللہ پاک فرماتاہے اس مزدورکی اجرت کیاہے جواپناکام پوراکرے؟فرشتے جواب دیتے ہیںاے ہمارے معبود!اے ہمارے آقااس مزدورکوپوری پوری اجرت دی جائے۔
اللہ پاک ارشادفرماتاہے اے میرے فرشتو!میں تم کوگواہ بناتاہوں کہ میں نے انکے نمازاورروزوںسب کااجرخوشنودی اورگناہوں کی مغفرت بنادیاپھرفرماتا ہے اے میرے بندو!مجھ سے مانگومجھے اپنی عزت وجلال کی قسم !آج تم اپنی آخرت کے لئے مجھ سے مانگوگے میںتم کووہ ضروردوںگااورجوکچھ اپنی دنیاکے لئے مانگوگے میں اسکالحاظ رکھوںگامجھے اپنی عزت وجلال کی قسم!جب تک تم میرے احکام کی حفاظت کروگے (بجالائوگے)میں تمہاری خطائوںاورلغزشوں کی پردہ پوشی کرتارہوںگااورتم کوان لوگوںکے سامنے جن پرشرعی سزاواجب ہوچکی ہے رسوانہیں کرونگاجائوتمہاری بخشش ہوگئی تم نے مجھے رضامندکیامیں تم سے راضی ہوگیاحضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ فرشتے یہ ارشاد سن کرخوش ہوجاتے ہیں اورماہِ رمضان کے خاتمے پرامت محمدیہ کویہ خوشخبری پہنچاتے ہیں ۔(غنیة الطالبین) عیدکے دن سات قسم کے گناہ گاربخشش کی نعمت سے محروم رہیں گے ۔گراں بیچنے کے لئے غلہ کوروک کررکھنے والا،ہمیشہ شراب پینے والا،ماں باپ کی نافرمانی کرنیوالا،رشتہ ناطہ توڑنے والا،دل میں کینہ رکھنے والا،زناکار،سودخور۔
عیدکے دن مندرجہ ذیل اموربجالانامسنون ومستحب ہیں۔ مسواک کرنا،غسل کرنا،کپڑے نئے ہوںتوبہترورنہ دھلے ہوئے پہننا،خوشبولگانا،صبح سویرے اٹھ کرعیدگاہ جانے کی تیاری کرنا، صبح کی نمازاپنے محلہ کی مسجدمیں اداکرنا،نمازعیدالفطرسے پہلے صدقہ فطراداکرنا،عیدگاہ کی طرف پیدل چل کرایک راستے سے جانااوردوسرے راستے سے واپس آنا،گھرسے عیدگاہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں عیدالفطرکے دن تکبیرات پڑھنا، نماز عید الفطر کوجانے سے پہلے طاق عددکھجوروں یاچھواروں کاکھانایامیٹھی چیزکھالینا،عیدکی نمازکے لئے خطبہ یہ سنت ہے خطبہ نمازکے بعدہوگا،عیدکی نمازکسی بڑے میدان میں اداکرناسنت ہے لیکن بڑے شہریااس جگہ جہاں زیادہ آبادی ہو۔
ایک سے زائدمقامات پرعیدین کے اجتماع بھی درست ہیں اورمیدان کی بھی شرط نہیں بڑی مساجدمیں بھی یہ اجتماع صحیح ہیں جیساکہ آج کل ہورہاہے اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اگرکسی ایک جگہ اجتماع ہوگاتوبہت سے لوگ نمازعیدسے محروم رہ جائیں گے کچھ توحقیقی مشکلات کی وجہ سے اورکچھ اپنی سستی کے باعث۔ اللہ پاک ملک پاکستان کواستحکام اورامن کاگہوارہ بنائے ۔ہماری تمام جانی مالی عبادات کواپنے حبیب کریمۖکے صدقے اپنی بارگاہ میں قبول فرماکرہمارے لئے ذریعہ نجات بنائے ۔اللہ پاک عالم اسلام کی خیرفرمائے ۔تمام مسلمانوں کوآپس میں اتحادواتفاق کی دولت نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامین
تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی
0333.6828540