تحریر : عارف محمود کسانہ۔ سویڈن
قرآن کے بعد حدیث نبوی کو اہمیت حاصل ہے اور صحیح احادیث رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ سنت خیرالانام ہر مسلمان کے لیے مشعل راہ ہے۔ جب تک حضورؐ سے بے پناہ محبت نہ ہو وکوئی مومن ہی نہیں ہوسکتا۔ محبت کا یہ تقاضا ہے کہ آپؐ کے اسوہ حسنہ سے روشنی حاصل کرکے زندگی بسر کی جائے۔ قرآن میں جب یہ کہا گیا ہے کہ رسول پاکؐ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضورؐ کا ہر عمل قرآن کے مطابق تھا ۔قرآن مجید میں کم از کم تیرہ مختلف مقامات پر یہ وضاحت کی گئی ہے کہ حضورؐ خود وحی یعنی قرآن مجید کی پیروی کرتے تھے اس لیے اگر ہم بھی قرآن مجید کی پیروی کریں تو حضور پاکؐ کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں۔ سورہ مائدہ کی تیسری آیت جو کہ آخری وحی تھی وضاحت کردی کہ آج دین کو مکمل کردیا گیا ہے۔ پھر حضورؐ نے اپنی زبان مبارک سے اپنے آخری خطبہ میں امت پر اسی حقیقت کو واضع کردیا ۔ چونکہ آپؐ پر نبوت کو سلسلہ ختم ہوگیا اس لیے قرآن انسانیت کے نام خدا کا آخری پیغام ہے۔
اسلامیان ہند کے عظیم رہنماء قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے اسلام کا تعارف اوروضاحت بہت ہی مختصر مگرجامع انداز میں کی جو شائد کسی بڑے سے بڑے عالم نے بھی نہ کی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس حقیقت سے سوائے جہلا کے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا بنیادی ضابطہء زندگی ہے جو معاشرت، مذہب، تجارت، عدالت، فوج، دیوانی، فوجداری اور تعزیرات کے ضوابط کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ مذہبی تقاریب ہوں یاروزمرہ کے معمولات، روح کی نجات کا سوال ہو یا بدن کی صفائی کا، اجتماعی حقوق کا سوال ہو یا انفرادی واجبات کا، عام اخلاقیات ہوں یا جرائم، دنیاوی سزا کا سوال ہو یا آخرت کے مواخذہ کا، ان سب کے لیے اس میں قوانین موجود ہیں۔ اسی لیے نبی اکرمؐ نے حکم دیا تھا کہ ہر مسلمان قرآن حکیم کا نسخہ اپنے پاس رکھے اور اس طرح اپنا مذہبی پیشوا آپ بن جائے۔
اسلامی حکومت کی کا تصور واضع کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا واحد ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاََ نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی ، نہ کسی شخص یا ادارہ کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست یا معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے اور حکمرانی کے لئے آپ کو علاقہ اور مملکت کی ضرورت ہے۔
اسلام میں اقتدار اعلیٰ اور قانون سازی کو حق صرف خدائے بزرگ و برتر کا حاصل ہے۔ ختم نبوت کے بعد اب کسی بھی اور رسول یا نبی کی آمد ممکن نہیں۔ خدا نے جو کچھ کہنا تھا وہ سب کہہ دیا اور وہ سب قرآن مجید میں موجود ہے۔ اس میں دیئے ہوئے اصول و ضوابط مستقل نوعیت کے ہیں مگر قرآن وہ طریقے اور تفصیلات خود متعین نہیں کرتا جن کے مطابق ان اقدارو اصول کو ایک نظام کی شکل دی جاتی ہے۔ یہ طریقے حالات کے تقاضوں کے مطابق ہر دور کی ضرورت کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔یہ جزئی احکاماتBy Laws امت مسلمہ اپنے لیے قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں وضع کرتی ہے جنہیں شریعت کہا جاتا ہے۔ اصول شریعت میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہوتی مگر احکام شریعت میں اجتہاد کے ذریعہ تغیر و تبدل ممکن ہے۔ مختلف زمانے میں جو شریعت کے احکام یا فقہ کی رو سے مسائل کا حل پیش کیا گیا اگر تو وہ ہمارے دور کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے تو وہ قابل عمل ہے بصورت دیگراُن پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے
کیونکہ اُن کی حیثیت الہامی نہیں ہے۔ بنو عباس اور دوسرے ادوار میں وضع کیے گئے فقہی احکام ایسے شرعی احکام نہیں کہ اُن پر دور جدید کے تقاضوں کے مطابق نظر ثانی نہ کہ جاسکے اور نہ وہ قرآنی احکامات کی طرح مقدس ہیں۔اسلامی نظام کے سمجھنے میں جو الجھنیں پیدا ہورہی ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنے والوں اور عام لوگوں نے بھی ان طریقوں کوجو کسی زمانے میں، اس وقت کی ضرورت کے مطابق بنائے گئے تھے ، قرآنی قوانین کی طرح مستقل اور غیر متبدل سمجھ لیا ہے ۔ وہ وضع کردہ قوانین اس زمانے کے اگر تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتے تو ہمیں ان کے نفاذ پر زور دینے کی بجائے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اجتہاد کرتے ہوئے نئے قوانین وضع کرلینے چاہیے ۔ لیکن جب انہی قوانین کو شریعت کا نام دے کر نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا ہے جو آج کے ضروریات کو حل نہیں کرسکتے تو اسلام کے متعلق یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام دور حاضر کے تقاضے پورے نہیں کرسکتایہی وہ ایک اہم حقیقت ہے جس کی وجہ سے اسلام کے بارے میں غلط تصور پرورش پاتا ہے۔ یہ واضع رہے کہ قرآن حکیم کی متعین کردہ حدود میں کوئی بھی کسی قسم کا ردو بدل نہیں کرسکتا۔
ایک عام مسلمان کے لیے روزمرہ کے عام مسائل کے لیے فقہا کی جانب سے کی گئی تشریح رہنمائی کرتی ہے اور اس سے ہم آہنگی بھی پیدا ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دور جدید کے نے نئے مسائل کا حل کسی ایک فقہ میں نہیں بلکہ اس کے لیے ایک فقہی پیراڈائم سے نکل کر دوسرے فقہی پیراڈائم میں داخل ہونے کی ضرورت ہے۔ اس طرح بہت آسانی سے کئی مسائل کا حل نکل سکتا ہے اور جو رہ جائیں ان کا حل اجتہاد کی روشنی میں تلاش کیا جاسکتا ہے جو دور حاضر کی اہم ضرورت ہے۔ اگر ایک غیر مسلم اسلام قبول کرلے اور پھر یہ سوال کرے کہ مجھے اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے ایک ضابطہ حیات دے دیں جس کی روشنی میں اپنا سفر زندگی طے کروں۔ تو اُسے قرآن حکیم دیا جائے کہ اس سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے تم ایک مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرسکتے ہو۔ دین کا مطالبہ یہی ہے کہ کتاب اللہ کی روشنی میں اپنے شب و روز بسر کرو۔خلاصہ کلام یہ کہ قرآن حکیم کی سپریم اتھارٹی کے تابع عقل ، اسوہ حسنہؐ اور عشق مصطفےٰ ﷺ کی روشنی میں سفر زندگی طے کرنا ہی اسلام پر کار بند ہونا ہے۔ حضورؐ کی وساطت سے ملنے والا خدا کا آخری پیغام ہی ہمارا دستورالعمل اور رہنما ہے بقول علامہ اقبالؒ آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت او لایزال است وقدیم
تحریر : عارف محمود کسانہ۔ سویڈن