تحریر: ایم ۔ ایس۔ نور
سیکولر میڈیا کی طرف سے اسلامی تعلیمات کے مطابق عورتوں کے مقام و مرتبے پر تابڑ توڑ حملے کیے جاتے ہیں۔اسلامی لباس یا حجاب کی مثال دے کر یہ ثابت کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی جاتی ہیں کہ عورتوں کو اسلامی تعلیمات و قوانین کے تحت محکوم بنا کر رکھا جاتا ہے۔ اسلام میں عورت کا حجاب کیوں ضروری ہے، اس پر بات کرنے قبل تاریخ کی مختلف کتابوں میں درج اسلام سے قبل کے معاشروں میں عورت کے مقام کو دیکھ لیا جائے۔ تاریخ سے حاصل کردہ درج ذیل مثالیں اس حقیقت کو آشکار کرتی ہیں کہ اسلام کی آمد سے قبل ابتدائی تہذیبوں میں عورت کا مقام بہت پست تھا اور اسے بے جاء ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا، یہاں تک کہ اسے بنیادی انسانی عزت سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔
قارئین! بابلی تہذیب میں عورت ذات کی بہت تذلیل کی جاتی اور اسے پائوں کی جوتی سمجھا جاتا تھا۔ بابلی قوانین کے تحت اسکے تمام حقوق غصب کرلیے جاتے تھے۔ اگر کوئی مرد کسی کا قتل کردیتا تھا تو اس مجرم مرد کو سزا دینے کی بجائے اسکی بیوی کو موت کی گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ قدیم تہذیبوں میں یونانی تہذیب کا بھی خاصا چرچا ہوتا ہے۔ یونانی تہذیب میں بھی عورتوں کو تمام بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا اور انہیں انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ یونانی علم الاصنام میں ایک ‘خیالی عورت’ کا ذکر آتا ہے ، جسے پنڈورا کہا جاتا تھا۔ اس عورت کو بنی نوعِ انسان کی بدقسمتی کی بنیادی جڑ قرار دیا جاتا تھا۔گوء کہ عورتوں کی پاکدامنی بڑی قیمتی تھی اور پاکدامن عورت کو عزت بھی دی جاتی تھی مگر بعد ازاں یونانی اپنی جنسی بھوک اور انا سے مغلوب ہوکر بے راہرو ہوگئے اور یونانی معاشرے میں عورت کو پبلک پراپرٹی قرار دیکر تمام طبقوں میں عصمت فروشی عام کردی گئی تھی۔
رومی تہذیب جب اپنے عروج پہ تھی تو اس زمانے میں مرد کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ بلاوجہ بھی اپنی بیوی کی جان لے سکتا تھا۔ اس دور میں عصمت فروشی اور عریانی عام تھی اور عورت کو پائوں کی جوتی سمجھتے ہوئے اسکی جنسی تضحیک کی جاتی تھی۔مصری تہذیب میں لوگ اپنی عورتوں کو برا سمجھتے تھے اور اسے شیطان کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔ ہندوستان میں آج بھی عورتوں کو صرف جنسی بھوک مٹانے کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے اور پائوں کی جوتی سمجھتے ہوئے ظلم و ستم کیا جاتا ہے۔ اسلام سے قبل عرب معاشرے میں بھی عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھااور بچی کی پیدائش پر اسے زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ اسلام نے عورتوں کو عزت اور مساوات دی، اور ان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنا مقام برقرار رکھیں۔ اسلام نے عورتوں کا مقام و مرتبہ بلند کیا اور انہیں ان کے جائز حقوق 1400برس قبل دیدیئے۔
لوگ عورتوں کے حجاب کی بات کرتے ہیں، مگر قرآنِ پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورتوں کے حجاب سے قبل مردوں کو نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیا ہے۔ سورة النور میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ : ‘ (اے نبی)مسلمان مردوں سے کہو کہاپنی نگاہیں نیچی رکھیںاور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے ، لوگ جو کچھ کریں، اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے’۔ مرد جوں ہی کسی عورت کو دیکھتا ہے اور اسے بے حیائی کا خیال آئے تو اسے فوراََ اپنی نگاہیں نیچی کرلینی چاہیئے سورة النور کی اگلی آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ‘ (اے نبی)مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔ سوائے اسکے کہ جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے’۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حجابی لباس کے چھ بنیادی اصول ہیں۔ سب سے پہلا اصول جسم کی وہ حد ہے جسے ڈھانپنا ضروری ہے۔ یہ مردوں اور عورتوں کیلئے مختلف ہے۔ مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے جسم کو کم از کم ناف سے گھٹنوں تک ڈھانپ کررکھےعورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سوائے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کلائی تک کے پورے جسم کو ڈھانپ کررکھیں۔ بقیہ پانچ اصول مرد و عورت پر یکساں لاگو ہوتے ہیںدوسرا اصول یہ ہے کہ مردو عو رت کا لباس ڈھیلا ڈھالا ہو جس جسم کے مختلف حصوں کو نمایاں نہ کرے۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ لباس اتنا باریک نہ ہو کہ اس کے اندر دیکھا جاسکے۔ چوتھا اصول یہ ہے کہ لباس اتنا بھڑکیلا نہ ہو کہ صنفِ مخالف کے لیے پرکشش بن جائے۔ پانچواں اصول یہ ہے کہ لباس صنفِ مخالف کے لباس سے مشابہ نہ ہو، یعنی مرد عورتوں جیسے لباس نہ پہنیں اور عورتیں مردوں جیسے لباس پہننے سے گریز کریں۔ چھٹا اصول یہ ہے کہ مسلمان مردوعورت کا لباس کفار کے لباس سے ملتا جلتا نہ ہو یعنی وہ لباس نہ پہنا جائے جو منکرین کی نشانی یا ان کے مذہب کی علامت ہو۔
قارئین! حجابی لباس کے چھ اصولوں کے علاوہ مکمل حجاب میں اخلاقی چال چلن ، رویہ، وضع قطع اور فرد کی نیت بھی شامل ہے۔ وہ فرد جو صرف کپڑوں یا لباس کی حد تک حجاب کا پابند ہے ، وہ جزوی طور پر محدود حجاب میں ہے۔ لباس کے حجاب یا پردے کے ساتھ ساتھ آنکھوں کا پردہ، خیال کا پردہ اور نیت کا پردہ بھی ہونا چاہیئے۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایک فرد چلتا کس طرح ہے اور اسکا رویہ اور بات کرنے کا انداز کیسا ہے۔ عورت کے لیے حجاب کی ضرورت کا اندازہ قرآنِ پاک میں سورة الاحزاب کی ان آیات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
اللہ کریم فرماتے ہیں کہ ‘ اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکا لیا کریں۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایا کرے گی اور پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے’۔ قرآن کہتا ہے کہ عورتوں کے لیے حجاب اس لیے مقرر کیا گیا ہے تاکہ ان کی پہچان حیادار خواتین کے طور پر ہوسکے اور اس طرح وہ دست درازی اور چھیڑ چھاڑ سے بھی محفوظ رہیں گی۔ حجاب عورت کے مقام و مرتبے اور عزت کو بلند کرتا ہے اور اسکی عصمت کی حفاظت کرتا ہے۔
قارئین! مغربی دنیا میں عورت کی آزادی اور خود مختاری کے نام پر جو واویلا مچایا جاتا ہے، وہ دراصل اسکے جسم کے استحصال کی درپردہ شکل ہے۔ عورت کی روح کی کم توقیری اور اسے اسکی عزت و احترام سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ مغربی معاشرہ چیخ چیخ کر یہ دعوے کرتا ہے کہ اس نے عورت کو سماجی بلندی دی ہے۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ معاشرہ عورت کو باندی اور داشتہ کے سب سے نچلے درجے تک لے آیا۔
مغرب میں عورتیں شمعِ محفل ہیں، جو مردوں کا دل بہلائیں اور جنسی بھوک سے بے چین مردوں کو اپنے جسم پیش کریں۔ اسے اس معاشرے میں ‘ آرٹ اور کلچر’ کے رنگین پردوں میں چھپا دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کی بخشش فرمائے اور ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق اور استقامت دے، آمین۔
تحریر: ایم ۔ ایس۔ نور