تحریر : رانا ابرار
قارئین ایک بہت اہم اور ضروری بات جو میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ اور وہ بات ہے۔۔۔!ایک سوچ، ایک فکر، اور اس پر نظریات کا مجموعہ، کے تحت اس وقت پاکستان کے اندر کچھ لوگ اسلام اور نظریہ پاکستان پر اعتراضات اور فحش گوئی کر رہے ہیں اور لادینیت اور مغربی تہذیب کے راگ الاپتے ہیں اور وہ بھی لا یعنی۔ یہ لوگ خود کو سیکیولر اور لبرل یاملحد ظاہر کرتے ہیں لیکن انکاسب سے بڑا حدف جتنا اسلام بنتا ہے اور دوسرا کوئی مذہب نہیں وجہ؟ اس مہم میں ان لو گو ں کا ہتھیا ر روش خیالی آزادانہ سوچ، آزادی اظہارے رائے ہے۔
شکارنو جوان نسل ہے ویسے تو اس طرح کے خدائی دعوے دار مختلف طریقوں سے کام کر رہے ہیں لیکن اس وقت میں سوشل میڈیا کے اوپر ایک محاز آرائی دیکھی گئی ہے اور وہ بھی منظم سازش کے تحت جس میں اس طرز کی سوچ کے لوگوں کے خیالات کو دیکھنے کا موقع ملا کیونکہ ان لوگوں کے پاس سب سے بڑاذریعہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہے جس پر یہ اپنی اصل شناخت کو چھپا کر یہ کام سر انجام دے رہے ہیں۔ اور یہ لوگ اسلام مخالف نظریات کو فروغ دے رہے ہیں اور عام فہم لوگوں اور جن احباب کو دین اسلام کا علم نہیں ان کی ذہن سازی کر رہے ہیں اور ہمارے مسلمان بھائی اس بات کی تحقیق کئے بغیر سچ کیا ہے !اور جھوٹ کیا ہے! ان کی باتوںکو مان کر اسلام کے خلاف بولنا شروع کر دیتے ہیں اس طرح کے حالات میں نے دیکھے تو میرے دل اور دماغ نے کہا کہ میں اس بات کے اوپر قلم اٹھا کر اپنے پڑھنے والے لوگو ں تک یہ بات پہنچاوں اور میری یہ کوشش ہو گی کہ میرا یہ پیغام جتنے لوگوں تک پہنچ جائے تو اتنا ہی اچھا ہے کیونکہ غرض اس جزبہ کو فروغ دینا میرا مقصد ہے جسمیں اللہ اور اس کے رسولۖ سے محبت ہوجس طرح کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمیعین نے محبت کا ہمیں درس دیا اور اس محبت کی بدولت بہت سی فتوحات ان کا مقدر بنی میں ان باتوں کی وضاحت میں نہیں جاوں گا ،اوراس کے ساتھ نظریہ پاکستان اور وطن پاک جس کے چمن کی آبیاری ہمارے بڑوں نے اپنے خون سے کی تھی تو اب پتا نہیں۔
اچانک کیا ہو گیا کہ نظریہ پاکستان کے خلاف اتنی محاز آرائی اور اتنی شدت کی وجہ کیا ہے؟اور کچھ لوگ آ گئے جنہوں نے روشن خیالی ،فری تھینکنگ اور آزادی اظہارے رائے کی صورت میں گستاخیاںشروع کی اور ہمارے مذہبی وتاریخی اور سیاسیہیروں کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ہے۔اور یہ کام آہستہ آہستہ پھلنا پھولنا شروع ہو گیا ہے اور مقصد نوجوان نسل کے نظریات کو ایک سانچے کے تحت ڈھال دیا جائے ،یعنی ان کے سامنے اگر محمدۖ کی شان میں بے ادبی بھی کی جائے تو وہ برداشت کر جائیں اور اس برداشت کا مادہ یہ اجازت دے کہ گستاخی کی صورت میں بھی اس شخص پر کوئی اثر نہ ہووہ اس رستے کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ ہی وہ لوگ ہیں جن کو پاکستان سے بھی تکلیف ہے ۔وہ اس ارض پاک کو ایک سیکیولر ریاست دیکھنا چاہتے ہیںاور انکا یہ خواب کبھی پورا تو نہیں ہو سکتا لیکن ان کے مقاصد میں اہم یہ ہی ہے۔ ان کامذہب کہہ سکتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ مغرب اور اس کے نظریات کو پوجنا۔ اس کہ علاوہ مغرب میں کوئی بھی کام ہو خواہ وہ اخلاقیات کے دائرے میں ایک گری ہوئی حرکت ہو اس کا پرچار کرنا ان لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے لیکن پاکستا ن میں کسی بھی شخص کی چھوٹی سی غلطی پر یہ لوگ بہت واویلا مچا کر بغیر کسی وجہ اور دلیل کے کیچڑ اسلام پر اچھالتے ہیں۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے؛۔
کل تک ممکن ہے میں بھی بھرپور بغاوت کر بیٹھو ں
آج اگرچہ شکوے باطرزِ جمہوری کرتا ہوں
یہ لوگ عام معاملات زندگی میں جب ہمارے ساتھ ہوتے ہیں ،تو اسوقت آمنے سامنے یہ سخت انداز سے بات نہیں کرتے اس لئے ان لوگوں نے سوشل میڈیا پر اپنی مہم کو ایک منظم طریقے سے جاری رکھا ہوا ہے اور ان لوگوں کی باتوں کا سب سے زیادہ اثر بھی ہم لوگ یعنی ہمارے مسلمان بھائی لے رہے ہیں۔ اوراسی طرح سنی سنائی بات کو دلیل مان کر اسلام کے خلاف خود بات کرنا شروع کر دیا ہے۔
ان کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ عام حالات میں خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور بات بھی اسلام کے خلاف کرتے ہیں کیا عجیب بات نہیں۔۔۔۔۔؟اور ہم ہیں کہ اس طرح کے سوچ کے شخص کی بات کو مان لیتے ہیں وجہ؟ برعکس اس کے جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے حتی الامکان ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جو پرہیز ڈاکٹر صاحب نے تجویز کیا ہے اس پر عمل پیرا ہو ںاوراس معاملے میں ہم بہت محتاط رہتے ہیں لیکن دین کے معاملات میں ہم احتیاط نہیں برتتے اور فورا بغیر سوچے سمجھے واویلا مچانا شروع کر دیتے ہیں اس لئے ہمیں ان لوگوں کی مکاری اور چالاکی سے باخبر رہنا ہو گا ۔کیونکہ دفاع ہر کسی کا حق ہے اور اسطرح کے دفاع کے حق کی ادائیگی میں ہی کامیابی ہے ۔ میں آئیندہ کوشش کروں گا کہ ان لوگوں کے کام کرنے کے طریقے سے آپ لوگوں کو آگاہ کروں۔ میں ان لوگوں کے خیالات اور ان کی سوچ پر سے پردہ اٹھانے کی پوری کوشش کروں گا جو کہ ان کامقصد ہے اور طریق کار ہے انشااللہ۔
تحریر : رانا ابرار