تحریر : رانا بابر
یہ جو سوشل میڈیا پر اس وقت اسلام مخالف نظریات کو فروغ دے رہے تھے، اور شعائر اسلام اور مذہبی مقدم اور مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کر رہے تھے، تو اس وقت وطنِ پاک میں اسلام کے بیٹے انکے سامنے دیوار بن کر دین کے دفاع میں لگے ہوئے تھے اور ہر محاذ پر منہ توڑ جواب دیئے جا رہے تھے ، لیکن تب اسوقت انکو محسوس ہوا کہ ان کے سامنے جو دیوار بن کر کھڑے ہیں ان سے نمٹنا مشکل ہے تو سب سے پہلا قدم ان لوگوں نے یہ اٹھایا کہ دین کا علم رکھنے والوں کو اپنے فورمز پر سے بلاک کر دیا تا کہ وہ ان کے کا م میں رکاوٹ نہ بنیں کیوں کہ اس سے نئے آنے والے ممبران کو وہ جس طرح سے قابو کرنا چاہتے تھے وہ کرنا مشکل ہو گیا تھا اس کا یہ ہی حل تھا جو دین اسلام کا علم رکھتا ہو اس سے کنارہ کشی کی جائے اور جو انکی چالاکی کو نہیں جانتا یا کہ نیا صارف ہو یا دینی علوم میں اتنی مہارت نہ رکھتا ہو اسکو حدف بنایا جائے اسوقت ان لوگوں کو کوئی بھی راستہ نہ ملا اور انہوں نے ایک نئی چال چلنی شروع کی ۔جو ان کے ساتھ مباحثہ وغیرہ کرتے ہیں ان کے مطابق مجھے معلوم ہوا ہے کے یہ لوگ تقریباََ 5 سال سے انٹرنیٹ پر سازشانہ مواد پھیلا رہے ہیں اور پچھلے دو سال میں ان لوگوں کے کام میں تیزی آئی ہے اوران میں سے تقریباََ ایک ایک کی بہت ساری جعلی آئی ڈیز ہیں اوران لوگوں نے اپنی ویب سائٹس اور فورم بنائے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے ملک کے نامور لکھاریوں،شاعروں، ادیبوں ،تجزیہ نگاروں وغیرہ کی پروفائلز پر بھی یہ جعلی شناخت سے موجود رہتے ہیں ،کیونکہ عوام کی اکثریت ان کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور یہ اس طرح بھی اپنا شکار ڈھونڈتے ہیں ۔ ایک طرف یہ کافر کافر کا نعرہ لگا کر کے مسئلکی ہمدردی حاصل کرتے ہیں اور جب انکے نشر کردہ پیغامات لوگوں کو خوب بھانا شروع کرتے ہیں اس وقت یہ لوگ کسی کی بھی پرسنل معلومات حاصل کر لیتے ہیں،انکا شکار اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے یہ تو میرے مسئلک کا ہے تو اسی چکر میں آ کر اپنی آئی ڈی ہیک کروا بیٹھتا ہے ۔کیوں کہ یہ لوگ اب دلائل کی جنگ ہار چکے ہیں اور اسکا قرار اس صورت میں کر رہے ہیں کہ جو اسلام کے بیٹے ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑے تھے ان کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔
وہ ایسے کہ کسی کا نام لکھ کر کے اس کی طرف سے دعوٰی نبوت جاری کرنا شروع کر دیا ہے اور انٹر نیٹ پر اس طرح کی جعلی آئیڈیز بنائیں جن پر مغلظات ، بکواسات اور شانِ محمد ۖمیں گستاخانہ مواد پوسٹ کرتے ہیں اور مسلمان جو کہ ان کے ساتھ مناظرانہ گفتگو کرتے ہیں ان کی تصویر اس آئی ڈی پر لگا کر کے وہ بیان اس کے ساتھ منسوب کرتے ہیں ، اور اس طرح سے جب وہ دلائل کی بازی ہار نے لگے تو اس طرح کا کام شروع کر دیا ہے اور میرے خیال سے یہ ایک ڈر ہے جو ان کے دل و دماغ میں بیٹھ گیا ہے کہ وہ اب ناکام ہو چکے ہیں اور اس ڈر کی وجہ سے وہ نفسیاتی دبائو کا شکار ہوئے اور حد کردی جو خود کو آزاد خیال کہتے تھے اب ذہنی تنگ نظری والے کام تو خود شروع کر دئے اوران کے ڈر کی حالت اس منزل پر پہنچ گئی کہ اس طرح کے پرپیگنڈہ پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ بات یہ نہیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ بات یہ ہے کہ اگر وہ علم والے ہیں اور شعور رکھتے ہیں تو پروپیگنڈہ کیوں کرتے ہیں ؟ سوال یہ ہے ! ۔۔ان کو چاہئے کہ وہ اپنی اصل پہچان سے اپنا موقف سامنے رکھیں اور اس پر دلائل سے بات کیا کریں آمنے سامنے سوالات کا تبادلہ کیا کریں تا کہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ کس میں کتنا دم ہے ۔۔۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتے اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔
بات کرتے ہیں جرائت اور تحقیق کی ۔۔بات کرتے ہیں امن کی اور civilization کی اور کام کرتے ہیں فسادیوں والا اگر یہ لوگ امن کے اتنے ہی خیر خواہ ہیں تو کیا ضرورت ہے انکو کہ کسی مسلمان کی پروفائل سے اس کی تصویریں چرا کر کے اس پر جعلی آئی ڈی بنا کر کے نبوت کا دعوٰی پوسٹ کریں ۔کیامسلمان کی جان، جان نہیں؟۔۔ کیا اسطرح مسلمان کو خطرہ نہیں؟۔۔ کیا مسلمان انسان نہیں؟۔۔ کیا مسلمان کی کوئی قدر نہیں؟۔۔ کیا مسلمان کی کوئی اہمیت نہیں ؟۔ کیا یہی لوگ عقل،سمجھ،شعور، فہم،ادراک رکھتے ہیں ؟۔۔کیا انکے دماغ کی مشینری مسلمانوں کے دماغ سے مختلف ہے ؟۔۔کیا انکے پاس سوچنے سمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہے ؟۔۔کیا انکی تخلیق مسلمانوں سے مختلف ہے ؟۔۔کیا یہ ہی عقل کل ہیں؟۔۔ خود پسندی کے شکار ہیں یہ لوگ ۔۔! نفسیاتی بیماری سے متاثر انا کی بدولت ان کے من میں ایک ہی بات کھٹکتی ہے ، کہ اپنی بات کو دوسروں پر کس طرح مسلّط کریں؟۔ اوراس مقصد کے لئے نئی سے نئی چال چلتے ہیں اور معاشرے میں مادی فائدہ اور نقصان کی کسوٹی پر اسلام اور دوسرے مذاہب کا تقابلی جائزہ لے کر کے لا دینیت کو فوقیت دیتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے علاوہ ایک حقیقی زندگی کا واقعہ بتاتا چلوں ۔۔!میرا کلاس کا پہلا دن تھا اور سبجیکٹ انٹرنیشنل لاء تھا ۔ کلاس تو پہلے سے ہی چل رہی تھی لیکن میںنے سابقہ کچھ کلاسز شروع سے مس کی تھیں۔ وہ ٹیچر جو کلاس کو پڑھانے آئے وہ مجھ سے متعارف نہیں تھے دوران کلاس ان کی کچھ باتیں مجھے معیوب گزری اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ یہ صاحب سیکیولر ذہنیت کے مالک ہیں ۔ انٹر نیشل لاء پڑھاتے ہوئے وہ اسلام کو لتاڑنے کی کوشش کر نے لگے اور امیریکنز ایک civilized Nation اور پاکستا نی پرانے اورفرسودہ خیالات کے مالک لوگ ہیں،ہمیں امریکہ کے قانون کے طرح کا قانون بنانا چاہئے فلاں فلاں ۔ قصہ مختصر جب تک کوئی بولا نہیں وہ اپنی مرضی سے جس طرح دل کیا بولتے چلے گئے لیکن آخر کار حد ہے مجھ سے برداشت نہ ہوا کہ جو باتیں وہ کر رہے تھے مجھے ان کا علم تھا اورمجھ سے دوران کلاس رہا نہ گیا کہ میں خاموش رہوں برادشت سے باہر ہو گئی ان کی باتیں۔
جب میں نے بولنا شروع کیا تو موصوف کو نا گوار گزرا حالانکہ میں نے کوئی بھی الزام عائد نہیں کیا صرف جواب دیا کہ۔۔! جناب یکطرفہ بات کر رہے ہیں میں نے جب دلیل سے بات کرنا شروع کی تو بجائے تحمل مزاجی سے سننے کے مجھے یہ کہ کر خاموش کرنے کی کوشش کی کہ ۔۔تمہارا ذہن محدود ہے ۔ مجھے فی الوقت غصہ آیا لیکن خوشی اس بات کی ہوئی کہ ان صاحب نے میری بات سنے بغیر میری ذاتیات پر بات کی اور میرے دماغ کی بندش یا محدود ہونے پر مہر ثبت کر کے دستخط کر دئے ۔میں نے یہ سوچا کہ ان صاحب کی عمر تقریباََ 65 سے اووپر اور ان کے اندر بات کو سننے اورحقیقت سننے کی براداشت نہیں تو اس طرح کی ذہنیت کے جو جوان لوگ ہیں ان کا کیا حال ہو گا۔
تحریر : رانا بابر