تحریر : محمد رضا ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
جب باپ اپنی بیٹی کو اپنے اوپر بوجھ سمجھے گا ،بھائی اس کا حق وراثت کھا جائے گا، جب گھر میں بہن کو بھائی سے کم تر درجہ ملے گا اور جب خاوند اپنی بیوی کا مہر تک معاف کروا کے کھا جائے گا یا شرعی مہر کا نام لیکر اس کا مہر صرف بتیس روپے آٹھ آنے مقرر کیا جائے گا تو عورت گھر سے بیزار ہوگی ۔عورت کے حقوق کی پامالی میں جتنا باپ بھائی اور شوہر کا قصور ہے اس سے کہیں بڑھ کر علماء کرام کا قصور بھی ہے کہ جنہوں نے اس ناانصافی کوروکنے میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
کسی مسلمان کے لیے کسی صورت یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی بہن اور بیٹی کو وراثت کے حق سے محروم رکھے۔اکثر پڑھی لکھی مسلمان عورتیں بھی محض معاشرے کے دباؤ میں آکر بھائیوں کو اپنا حق وراثت معاف کردیتی ہیں لیکن یہ معافی دل سے نہیں ہوتی۔ بہنیں بھائیوں سے حق مانگیں اس کا ہمارے ہاں صدیوں سے رواج ہی نہیں ہے اس لیے جو بہن اپنا حقِ وراثت مانگتی ہے معاشرہ اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جیسے اس نے بہت بڑا جرم کر لیا ہے ۔ اس کا بھائیوں کی طرف سے سوشل بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور بھائی بہن کے رشتے کا معطل کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے ایک کمزور بہن اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اس کے بھائی اس کا سوشل بائیکاٹ کردیں۔
لیکن عورت کا یہ شرعی حق قائم کرنے کے لیے کم از کم پڑھی لکھی عورتوں کو حق وراثت کی زبردستی معافی کے اس رواج کو اپنے پاؤں تلے روند کر قرآن کا شرعی حق بحال کروانا ہوگا۔ باپ کے فوت ہونے کے بعد اس جائیداد پر کسی ایک کا حق نہیں ہے بلکہ اب یہ امانت ہے ان وارثوں کی جن کو قرآن نے وارث ٹھہرایا ہے اس امانت کو جلد ازجلد اس کے وراثوں کے حوالے کریں اور وارث عورتوں کو ان کی جائیداد سے محروم نہ کریں کیونکہ اللہ کے ہاں یقینا وہ ان کے حق میں پکڑے جائیں گے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے غیر شرعی رسم و رواج کو ختم کرکے اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اگر ملک میں سیاسی سطح پر اللہ کی شریعت نافذنہیں ہے تو کم ازکم ہم ان معاملات میں تو اللہ کے حکم کو نافذ کریں جہاں ہمارا اختیار چلتا ہے۔ وراثت کا حق عورت کا وہ حق ہے جو اس کے معاف کرنے سے بھی ساقط نہیں ہوتا وہ جب چاہے معاف کرنے کے بعد بھی دوبارہ اپنے حصے کا مطالبہ کرسکتی ہے۔
ہماری دینی جماعتیں جو سسٹم کی تبدیلی کے لیے سیاسی جدوجہد کررہی ہیں یا اقامت دین کے لیے جدوجہد ہورہی ہے اور جہاں کہیں طاغوت کے خلاف جہاد ہورہا ہے اور علمائے دین مسجد کے منبروں سے معاشرتی برائیوں کے خلاف وعظ و نصیحت اور عوام کی تربیت کا بندوبست کررہے ہیں عورت کو اس کا حقِ وراثت دلانے کے لیے جدوجہد کریں۔ہم سب پر یہ ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کا قرض ہے اورضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسلامی تنظیموں کے پلیٹ فارمز سے عوام کو اسلامی قانون وراثت کے مطابق حصوں کی شرعی تقسیم کا علم سکھایا جائے اور معاشرے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ بات عام کی جائے کہ عورت کو اس کے حق وراثت سے محروم نہ رکھا جائے۔جو جائیداد آپ کووراثت میں ملی ہے اگرآپ نے اس میں سے پھوپھیوں اور بہنوں کا حصہ علیحدہ کرکے ان کے حوالے کردیا ہے اور اپنے بیٹوں کو تاکید کردی ہے کہ وہ اپنی بہنوں کو وراثت میں حصہ ضرور دیں تو آپ اللہ کا شکر ادا کریں لیکن اگر ابھی تک یہ سارے بوجھ آپ کی گردن پر ہیں تو آپ فکر کریں
بیٹیوں کے جائز قرآنی حق کے مطالبے پر یہ کہتے ہوئے سوشل بائیکاٹ کر دیا کہ ہم نے آپ کی شادیاں کر کے اپنی ذمہ داریاں پوری کر دی ہے اب آپ سب کا جائداد میں کوئی حصہ نہیں ۔حالانکہ علم میراث پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیںعورت کی میراث کے بارے میں کس قسم کی تعلیمات ہیں تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ دین اسلام کا نظام میراث سب سے اچھا نظام ہے :اسلام سے قبل ، اور دیگر موجودہ سماجوں میں عورت کی میراث کی تقسیم کچھ اس طرح ہے : (١)یہودی مذہب میں عورت کو میراث سے محروم رکھا گیا ہے:چاہیے کہ وہ ماں ، بہن ، بیٹی یا کوئی اور ہو۔ البتہ اگر کوئی مرد نہ ہو تو پھر اسے وراثت ملے گی ، جیسے اگر بیٹا موجود ہے تو بیٹی کو کچھ نہیں ملے گا، جب کہ بیوی کو شوہر کے ترکہ سے کسی بھی صورت میں کچھ بھی نہیں ملے گا۔(٢)۔ رومیوں کے ہا ں عورت کی میر ا ث :ان کے ہا ں عورت کو مرد کے برابر حصہ ملتا تھا۔
لیکن بیوی کو اپنے شوہر کے ترکہ سے کچھ بھی نہیں ملتا تھا تاکہ اس خاندان کا مال دوسرے خاندان میں منتقل نہ ہو جائے ، اسی کا لحاظ کرتے ہو ئے اگر کسی عورت نے اپنے باپ سے میراث پائی ہو اور جب وہ مر جائے تو اس کے ترکہ سے اس کے بیٹے اور بیٹوں کے بجائے اس کے بھائیو ں کو حصہ ملتا تھا۔(٣)۔ سامی قوموں ( قدیم مشرقی قوموں ) کے نزدیک عورت کی میراث :اس سے مراد طورانی، سریانی ، شامی ، اشوری ، یونانی قومیں ہیں جو عیسی علیہ السلام کی ولادت سے قبل مشرق میں آباد تھیں۔ ان کے نزدیک میراث کا نظام یہ تھا کہ باپ کے بعد بڑا بیٹا باپ کی جگہ لیتا تھا ، اگر وہ موجود نہ ہوتا تو مردوں میں سب سے زیادہ ارشد مرد کو مقرر کیا جاتا ، پھر بھائیوں کی باری، ان کے بعد چاچا کی باری ہوتی تھی۔ ان کے ہاں عورتوں اور بچوں کو کلی طور میراث سے محروم کردیا جاتا تھا۔(٤)۔ قدیم مصریوں کے ہاں عورت کی میراث :ان کے ہاں میت کے تمام اقرباء کو جمع کیا جاتا تھا جن میں اس کا باپ ، ماں ، بیٹے ، بیٹیاں ، بھائی ، بہنیں ، چاچے ، ماموں ، موسیاں اوربیوی سب شامل ہوتے تھے اور ہر ایک کو برابر برابر حصہ ملتا تھا۔
جن میں مرد ، عورت اور چھوٹے ، بڑے میں کوئی تمیز نہیں ہوتی تھی۔(٥)۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کے ہاں عورت کی میراث :اس زمانہ میں ان کے نزدیک تقسیم میراث کا کوئی مستقل یا خاص نظام نہ تھا ، وہ لوگ مشرقی دیگر اقوام کے طریقے پر چلتے تھے۔ وہ اپنی میراث کے حقدار صرف ہتھیار اٹھانے کے قابل مردوں کو سمجھتے تھے ، عورتوں اور بچوں کو اس سے کلی طور محروم رکھتے ہیں، چھوٹی بچیوں کو کبھی کبھار زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ اور اگر کوئی مرد مرجاتا تو اس کے گھرکے مرداس کی بیوی کے مالک اسی طرح بن جاتے جس طرح اس کے ترکہ کے مالک بن جاتے ، اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ شادی کرلیتے اور اسے کچھ بھی مہر نہ دیتے ، یا اپنی مرضی سے اس کی شادی کسی اور کے ساتھ کردیتے ،اور مہر خود کھالیتے ، یا اگر چاہتے تو عمر بھر اسے بغیر شادی ہی رہنے پر مجبورکرتے ، اور کبھی سوتیلا بیٹا بھی اس کے ساتھ جبری شادی کرتا تھااور اس کا مالک اسی طرح بن جاتا جس طرح اپنے باپ کے ترکہ کا مالک بن جاتا تھا۔
تحریر: محمد رضا ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
چئیرمین پاور گروپ آف لائیرز
باگڑی لا ء ایسوسی ایٹس ،1فرید کوٹ روڈلاہور