تحریر: ایم۔ ایس۔ نور
حضرت ابراہیم بن ادھم فرماتے ہیں کہ میں نے بعض مشائخ سے پوچھا کہ میں رزقِ حلال کہاں سے اور کس طرح حاصل کروں۔ مشائخ نے فرمایا کہ اگر تم رزقِ حلال کے طالب ہوتو شام چلے جائو، وہاں تمہیں رزقِ حلال کمانے کے مواقع میسر ہوجائیںگے۔ لہٰذا میں نے ملک شام کا سفر شروع کردیا اور اسکے ایک شہر مصیصہ میں پہنچ گیا۔ وہاں میں کافی دن رہا اور لوگوں سے معلوم کرتا رہا کہ میں کون سا کام کروں جس سے مجھے رزقِ حلال حاصل ہولیکن کوئی بھی میری صحیح رہنمائی نہ کرسکا۔ بالآخر میں نے وہاں کے مشائخ کی خدمت میں اپنا مسئلہ پیش کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر تم رزقِ حلال کے طالب ہوتو شہر طرسوس میں چلے جائو۔ وہاں تمہیں رزقِ حلال میسر ہوجائے گا۔ چنانچہ میں طرسوس شہر میں پہنچ گیا۔ میں وہاں رزقِ حلال کی تلاش میں گھومتا پھرتا رہا۔ ایک دن میں ساحلِ سمندر پر گیا تو ایک شخص وہاں میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے اپنے انگوروں کے باغ کے لیے نگہبان کی ضرورت ہے۔
کیا تم اجرت پر میرے باغ کی دیکھ بھال کرسکتے ہو؟۔ میں نے کہا کہ جی ہاں، میں تیار ہوں۔ وہ شخص مجھے اپنے باغ میں لے گیاجہاں میں خوب محنت اور لگن سے اپنا کام کیا۔ مجھے اس باغ میں کام کرتے ہوئے کافی دن ہوگئے۔ ایک دن باغ کا مالک اپنے چند دوستوں کے ساتھ باغ میں آیا اور مجھے کہنے لگا کہ ہمارے لیے بہترین قسم کے میٹھے انگور توڑ کرلائو۔ مالک کے حکم کی تکمیل کے لیے میں نے ٹوکری اٹھائی اور ایک بیل سے خوشنما انگور توڑ کر ان کے سامنے رکھ دیئے۔ جب باغ کے مالک نے انگور کا ایک دانہ کھایا تو وہ ترش تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اے باغبان! تم پر افسوس ہے،تجھے حیاء نہیں آتی کہ تم اتنے دنوں سے اس باغ میں کام کررہے ہو اور ابھی تک تمہیں کھٹے میٹھے انگوروں کی پہچان ہی نہیں ہوسکی ، حالانکہ تم یہاں سے انگور خوب کھاتے ہو گے۔
میں نے باغ کے مالک کو جواب دیا کہ اللہ کی قسم ، میں نے آج تک اس باغ سے انگور کا ایک بھی دانہ نہیں چکھا، پھر مجھے کھٹے اور میٹھے انگوروں کی پہچان کس طرح ہوسکتی ہے، مجھے تم نے صرف اس باغ کی دیکھ بھال کے لیے رکھا تھا، لہٰذا میں صرف اس باغ کی دیکھ بھال کرتا رہا اور اس باغ کے انگوروں کا ایک بھی دانہ نہیں کھایا۔ میری بات سن کر باغ کا مالک اپنے دوستوں سے مخاطب ہوا کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ کیا اس سے بھی عجیب بات ہوسکتی ہے کہ ایک شخص باغ کی اتنے عرصے تک نگہبانی کرے اور اپنا کام اتنی ایمانداری سے کرے کہ کبھی اس نے داغ سے ایک بھی دانہ نہ کھایا ہو۔ یہ شخص تو ابراہیم بن ادھم کی طرح متقی اور پرہیز گار معلوم ہوتا ہے۔ قارئین! رزقِ حلا ل ہوتو ایسا کہ اتنا عرصہ باغ میں رہنے کے باوجود بھی وہاں سے مالک کی اجازت کے بغیر انگوروں کا ایک بھی دانہ نہیں کھایا۔سبحان اللہ، ہر مومن کا عزم ہونا چاہیئے کہ اللہ رب العزت سے ہمیشہ رزقِ حلال کی طلب ہی ہونی چاہیئے اور نوالہ ء حرام سے اللہ کریم کی پناہ مانگنی چاہیئے۔ لیکن اس وسوسے کا علاج کیا نکالا جائے کہ حلال کمانے کے ذرائع بہت کم معلوم ہوتے ہیں اور خصوصاََ دورِ حاضر میں شریعت کے تمام اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے جائز ذرائع سے رزقِ حلال کمانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
اس طرح کے وسوسوں کے شکار افراد کو انبیاء کرام کی ذرائع آمدن کا مطالعہ کرلینا چاہیئے تاکہ ان کے وسوسے بھی دور ہوجائیں اور انہیں شریعت کے مطابق رزقِ حلال کمانے کے جائز ذرائع اپنانے میں بھی عار محسوس نہ ہو۔قارئین! تاریخ کی کتابوں میں انبیاء کرام کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ دورِ حاضر میں ہم جن پیشوں کو معمولی سمجھتے ہوئے اپنانے سے عار محسوس کرتے ہیں، انبیاء کرام علیہ السلام نے بھی یہی پیشے اپنا کر رزقِ حلال کمایا۔ حضرت لقمان رسیاں بنا کر فروخت کرتے تھے، حضرت اسماعیل تیر بناتے تھے، حضرت ابراہیم اور حضرت ذکریا کپڑے بیچتے تھے، حضرت یحییٰ جوتیاں سیتے تھے اور جوتیوں کی تجارت کیا کرتے تھے، حضرت نوح بڑھئی کا کام کرتے اور کشتیاں بناتے تھے، حضرت دائود پہلے بکریاں چرایا کرتے تھے اور پھر انہوں نے لوہے کا لباس بنانے کے پیشے کو اپنا لیا۔
حضرت آدم کھیتی باڈی کیا کرتے تھے، حضرت ادریس درزی کا کام کرتے تھے اور حضرت شعیب بکریوں کا کاروبار کرتے تھے۔ خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی تجارت کرتے تھے۔انبیاء کرام کی طرح صحابہ کرام نے بھی کسبِ معاش میں کسی قسم کا تامل نہ فرمایا اور ان کے روزگار کا زیادہ تر دارومدار تجارت اور ذراعت پر تھا۔ احادیث کی کتابوں کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمانِ غنی کپڑے اور کھجوروں کی تجارت کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت طلحہ بھی کپڑے کی فروخت کا کام کرتے تھے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کپڑے اور روغنیات کی تجارت کرتے تھے۔ حضرت عمرِ فاروق ذراعت کا کام کرتے تھے۔ حضرت علی کاشتکاری کرتے تھے اور حضرت سلمان فارسی چٹائیاں بنا کر فروخت کرتے تھے۔
قارئین! ہمیں اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیئے اور رزقِ حلال کے معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی اور عار نہیں ہونا چاہیئے۔ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں بھی کسبِ حلال کے لیے مزدوری، باورچی، کاشتکاری، حجام وغیرہ کے پیشوں کو اپنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا تھا، بلکہ انہیں اپنے پیشوں پر فخر ہوتا تھا۔ آج کے بے روزگار نوجوانوں کو انبیاء کرام اور صحابہ کرام کی مبارک سیرتوں سے اندازِ زیست سیکھنا چاہیئے۔
گھروں میں بیٹھ کر من پسند نوکریوں کا انتظار کرنے کی بجائے ہر جائز روزگار کو بخوشی قبول کرلینا چاہیئے۔ حلال رزق کمانے والے مسلمان بھائی کو اسکے پیشے کی بناء پر ہرگز حقیر نہیں سمجھنا چاہیئے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ معمولی پیشے سے رزقِ حلال کمانے والے ان لوگوں سے ہزار ہا درجہ بہتر ہیں جو اونچے منصبوں پر بیٹھ کر رشوتیں لیتے ہیں اور اپنی شرافت کے دعوے کرتے ہوئے دھوکہ دہی سے عوام کو لوٹتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر اس پر استقامت دے، آمین۔
تحریر: ایم۔ ایس۔ نور