counter easy hit

اسلام اور ملا گیری

Bismillah

Bismillah

تحریر: سجاد گل
کیا خوب مقولہ ہے کہ اس بیمار معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں سب کو اپنی دنیا کی اور دوسروں کی آخرت کی فکر ہے”بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی، چچا نورا نے مولوی صاحب کا پر جوش خطاب سنا، جس میں مولوی صاحب چیخ چیخ کربسم اللہ کی فضیلت پر بات کر رہے تھے، بتا رہے تھے کہ اگر ہم اللہ پہ بھروسہ کرتے ہوئے بسم اللہ پڑھ کر کوئی بھی کام کریں تو اس میں اللہ کی مدد شامل ہو جاتی ہے، اگر کوئی شخص بسم اللہ پڑھ کر سمندر میں گھوڑا دوڑا دے تو وہ ایسے سمندر پر چلتا جائے گا جیسے موٹروے پر چل رہا ہو، چچا نوراروز ایک نہر کے پل سے گزرا کرتا تھا ،چچا نورا نے یہ بات سنی تو بہت خوش ہوا کہ آئندہ پل کی ضرورت نہیں پیش آنی، پھر کیا تھا چچا نورا نے اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے بسم اللہ پڑی اور پانی پر سے چلتا ہوا نہر کراس کر گیا، اب چچا نورا ہر روز بسم اللہ پڑھ کر پل پار کرتا، پھرچچا نورا نے پل اکھاڑ کر پھینک دیاکہ اب اسکی کوئی ضرورت نہیں، کچھ عرصہ بعد وہ مولوی صاحب بھی اس طرف آنکلے۔

جب مولوی صاحب نے ادھر ادھر دیکھا تو یہ دیکھ کر پریشان ہوگے کہ پل وہاں موجود نہیں، اور کہنے لگے کس جہنمی نے یہ منافقانہ حرکت کی ہے کہ پل اکھاڑ پھینکا، اتفاق سے چچا نورا بھی اسی جانب نکل آیا، اس نے جب مولوی صاحب کی گفتگوسنی تو مولوی صاحب کو انکی وعظ ونصیحت یاد دی، مولوی صاحب فرمانے لگے ،میاں میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ تم خودکشی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دو، بلکہ تمام وسائل اور ذرائع مکمل کرنے کے بعد اللہ پہ بھروسہ کرو، چچا نورا نے کہا مولوی صاحب مجھے تو اللہ اور اسکے کلام پر بھروسہ ہے، یہ کہتے ہوئے وہ آج بھی پل پار کر گیا،مولوی صاحب یہ منظر دیکھ کر ہکا بکا رہ گے، ڈرتے ہوئے اب مولوی صاحب نے بھی یہ تجربہ کرنا چاہا، جب وہ نہر میں کودے تو انکے ساتھ وہی ہوا جو آپ سوچ رہے ہیں۔

ایک مولوی صاحب فارغ وقت میں ریوڑی کی ریڑی لگا لیتے تھے، چچا نورا انکی ریڑی کے پاس سے گزرا اور ایک ریوڑی کا دانہ دام پوچھتے ہو ئے ایک دانہ منہ میں ڈال لیا، مولوی صاحب ”استغفراللہ میاں اللہ کو ذرے ذرے کا حساب دینا ہے” چچا نورا ڈر گیا اور پوچھنے لگا اب میں کیا کروں، مولوی صاحب نے کہا ،اسکا کفارا یہ ہے کہ تم یہ ساری موم پھلی مجھ سے خرید لو اور اسکے مالک تم بن جائو اور پھر میں اس میں سے ایک دانہ کھا لو گا ،یوں کفارہ ادا ہو جائے گا، سبحان اللہ کیا دماغ پایا مولوی صاحب نے، چچا نورے کو حساب کتاب سے بھی بچا لیا اور اپنی پوری موم پھلی بھی بیچ دی، خدا کا کرنا ایسا ہوا کچھ دنوں بعد مولوی صاحب کا یہ سکینڈل کھل گیا ،کہ وہ مسجد کے چندے کو اپنے ذاتی معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔

لہذا انہیں اس مسجد سے نکال دیا جائے،ابھی اسطرح کی باتیں چل ہی رہی تھی کہ جمعہ کا دن آگیا،مولوی صاحب نے روتے ہوئے تقریر شروع کی،اللہ کے نیک بندو..یہ بتائوتمہارا مالک کون ہے؟ سامعین نے جواب دیا اللہ..مولوی صاحب ..تمہیں کس نے پیدا کیا.. سامعین نے کہا اللہ نے..مولوی صاحب ..تمہیں مال دولت سے کس نے نوازا… سامعین … اللہ نے..مولوی صاحب.. مال دولت کا حقیقی مالک کون ہے ؟ سامعین ..اللہ ..پھر مولوی صاحب جوش میں بولے… اگر اللہ کے اس مال میں سے اللہ کے ادنیٰ سے بندے مولوی اللہ رکھا نے تھوڑے پیسے لے کر استعمال کر لئے تو حساب کتاب کیسا، مزہ آیا آپ کو یا نہیں؟ جی جناب یہ عذاب قبر کی باتیں، جنہم کی آگ میرے اور آپ کے لئے ہیں، ملا کے لئے تو حور وجنت اور دودھ اور شہد کی نہریں ہیں، اسی لئے تو اسداللہ خان غالب نے فرمایا تھا۔

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

Religion of Islam

Religion of Islam

رسول اللہ ۖ کا فرمان ہے کہ علما میرے وارث ہیں، یعنی علم انکی وراثت ہے، وہ دین ِاسلام کا پرچار کریں گے ، اور دیگر احکامات ِ الہی اور فرامین نبوی سے پتہ چلتا ہے کہ علماء کا کام معاشرے کی اصلاح ہے ، امت کہ اندر آجانے والی اخلاقی برائیوں کی جڑیں اکھاڑنا اور فتنہ و فساد کے پہلوں کا سدِ باب کرنا ان کی اولین ذمہ داری ہے،دین اسلام کی حقیقی دعوت سے دنیا کو آگائی فراہم کرنا انکا مقصدِ حیات ہے،نہ کہ اپنی ہٹیاں اور دکانیں چمکانے کے لئے دین کا سہارا لے کر لوگوں کو آپس میں دست و گریباں کرنا،نہایت افسوس اور دل پہ پتھر رکھتے ہوئے کہنا پڑ رہا ہے کہ آج ہمارے اکثر علما اس ذمہ داری کو پسِ پشت ڈال کر ایک دوسری ڈگر پر چل نکلے ہیں، دوسرے مسلک پر لعن طعن اور انکی پگڑی اچھالنے کودینی خدمت کا نام دے دیا گیا ہے، چھوٹے چھوٹے اختلافات کو پروان چڑھا کر نفرتوں کے پھیلانے کا نام دین حق سمجھ لیا گیا ہے،ایک مسجد کا ٹارگٹ دوسری مسجد اور ایک ملاکا ٹارگٹ دوسرا ملا،اس عمل بد کو بیان حق کا نام دے دیا گیا ہے۔

اپنے مسلک و فرقہ اور اپنی جماعت و تنظیم سے نظریاتی اختلاف اور فقہی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے پر کفر و شرک اور فسق و ارتدار کے فتوے عام سی بات ہے، جو آدمی ان کے مزاج پر پورا اترے گا وہی مسلمان کہلائے گا ،اوراگر کوئی انکی طبیعت پر گراں گزرے گا تو وہ کافر ،گستاخ،مشرک،مرتد،لادین ،اور پتہ نہیں کیا کیا سابقے اور لائقے اسکے نام کے ساتھ لگ جائیں گے،قائداعظم ہوں یا علامہ اقبال، سر سید احمد خان ہو ںیا ابوالکلام آزاد،مولانا مودودی ہوں یاڈاکٹر اسرار،زید حامد ہو ںیا جاوید غامدی،ڈاکٹر ذاکر ہوں یا طاہر القادری، حافظ محمد سعید ہوں یا مولاناطارق جمیل ان سب پہ ہی ملائو کے فتوے لگ چکے ہیں،کسی پر کفرو فسق کے فتوے، توکسی پر گمراہی کی مہریں، کسی پر قادیانی ہونے کے الزام ،تو کسی پر فتنہِ عظیم کی وار ،اورکسی پر مرتد ہونے کے ٹھپے۔

ممبرو محراب سے اسلام اور سلامتی کے درس بند ہو کر نفرت و فساد کے سبق ملنا شروع ہو جائیں تو سمجھ لیں ایسی قوم کی زندگی خطرے میں ہے ،بس وہ وقت دور نہیں جب اس دنیا میں موجود وہ قومیں جو اخلاقی طور پر ان سے افضل ہیں چھا جائیں گی ،ہم جتنی بھی باتیں کر لیں جتنے بھی باجے بجا لیں کہ یہودی بندر اور خنزیر سے بھی گندی قوم ہے عیسائی ایسے اور ہندو ویسے ہیں، جب تک ہم آئینہ حقیقت میں اپنا چہرہ نہیں دیکھیں گے ہم ذلت کی پستیوں میں گرتے ہی چلے جائیں گے۔

اگر ان مفاد پرست ملائو سے ہم نے دین اسلام کو نہ بچایا تو اسکے نتائج بہت خطر ناک ہو سکتے ہیں،امت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنی گلی اور محلے کی مسجد کے پیش امام پر نظر رکھے اگر وہ کوئی ایسی بات کرتا ہے جس سے اسلام کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہو رہا ہے،جس سے نفرتیں اور کینے نمایا ہو رہے ہیں تو فوراََ اسے ٹوکیں کہ جناب یہ اسلام نہیں بلکہ ملاگیری ہے،کسی بھی ایسے اسلام کے خدمت گار کے دعوے دار سے ایسی کوئی بات سنتے ہیں کہ اس میں فسادات کے پہلو پوشیدہ ہیں تو فوراََ اسے آگاہ کریں کہ آپ اسلام کی خدمت کریںنہ کہ ملاگیری کی دُم ہلاتے پھریں،اور ایک بات دوٹوک اور سیدھی سیدھی سنتے جائیں کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے ،نفرت و فساد کی بہت سختی سے روک تھام کرتا ہیپ،اور اسلام وہی ہے جو اللہ اور اسکے رسول کے فرامین سے ہمیں ملتا ہے،آپ اسلام کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں کہ جس ملا گیری کو ہم اسلام سمجھ بیٹھے ہیں اسکا اسلام سے دور دور تک کا کو تعلق اور واسطہ نہیں بلکہ اسلام ملا گیری کی پُر زور مذمت کرتا ہے،ملاگیری اسلام کے بالمقابل کھڑی کی گئی ایک بدنما دیوار ہے،اس ملاگیری کی دیوار کو حقیقی اسلام کے وار سے یہ گرایا جا سکتا ہے۔

Sajjad Gul

Sajjad Gul

تحریر: سجاد گل