تحریر: عرفان جتوئی
ابھی چند دن پہلے مجھے اتفاق سے ایجوکیٹرز کے ٹیسٹ کے لئے جانا پڑا۔ جہاں میں نے سینکڑوں نوجوانوں کو ملازمت کے حصول کے لئے ایک جگہ متحدہ پایا، جو کہ ایجوکیٹرز کی 18000 سیٹوں پر اپلائی کرنے کی نیت سے این ٹی ایس کا رائج کردہ ٹیسٹ دینے آئے ہوئے تھے۔ ایک غیر مصدقہ خبر یہ بھی ہے کہ انہیں 18000 کے فیز ٹو میں باقی 12000 سیٹیں بھی آئی ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں اساتذہ کی بھرتیاں اور اسکولز کا قیام یقینا وطن عزیز خاص طور پر صوبہ پنجاب کی ترقی میں اہم پیش رفت ثابت ہوں گے۔تاہم یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملکی ترقی کے لئے جس تعلیم کو اہم سمجھا جارہا ہے کیا وہ مسٹر اور مولوی کا فرق ختم کر پائے گی؟ آج اسکولز اور اساتذہ کی خطیر تعداد کے باوجود ہمارے میں مداراس اور مسجدوں میں قرآن و حدیث کے لئے الگ الگ عمارتیں قائم کی گئی ہیں۔ ہوسٹل کے روم میں 5 ہونہار طالب علموں میں سے جب پوچھا گیا کہ آپ میں سے کوئی ایسا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر قرآن پڑھتا ہو تو باقی سب خاموش رہے تاہم ایک لڑکے نے شرمندگی سے کہا کہ اسے قرآن پڑھنا ہی نہیں آتا۔
ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لئے میرٹ سے کہیں زیادہ اسلام کی اہمیت ہونی چاہیے۔ وہ تمام اصول و ضوابط جو ہم سمندر پار سے آنے والے فنون سے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں وہ سب قرآن مجید میں موجود ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابنیاءکی بعثت کا سلسلہ ان کی اقوام کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کریم دے کر بھیجا۔ ایک ایسی کتاب جو فصیح و بلیغ کلام تھا، جسے اہل قریش تو کیا پوری دنیا کے اس کا مقابلہ نہیں کر پائی۔ جس قدر یہ قرآن فصیح و بلیغ تھا اس قدر اس میں دنیا بھر کے علوم کو جمع کر دیا گیا ہے اور جن سے مسلمانوں کو وقت کے ساتھ ساتھ ناقابل یقین فائدے ہوئے۔
جو یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن تعلق صرف مدارس اور مسجدوں میں رہنے والے افراد تک محدود ہے ان کے لئے ایک چھوٹی سی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ آج کی سائنس یہ سمجھتی ہے کہ انہوں نے فنگر پرنٹس کا انکشاف کیا جو کہ ایک بہت بڑی ایجاد کا پیش خیمہ ہے، تاہم اگر ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھتے ہیں تو قرآن مجید میں یہ بات واضح موجود ہے کہ}جان رکھوکہ ہم تمہاری انگلیوں کے پوروں تک کو جوں کا توں بنانے پر قادر ہیں{ القرآن اس کے علاوہ علم نجوم، فلکیات، جغرافیہ، بائیو، کیمسٹری اور میتھ وغیرہ ان تمام سائنسی علوم کا منبع اگر ہے تو فقط قرآن مجید، کوئی بھی تھیوری قرآنی تعلیمات سے ہٹ کر نہیں ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج کا طالب علم ڈاکٹر، انجینئر تو بن جاتا ہے مگر اسے قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا۔
تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، رسمی اور غیر رسمی ۔ رسمی تعلیم جو بچے اپنے والدین سے سیکھتے ہیں اور غیر رسمی تعلیم بچے گھر سے باہر جا کر سیکھتے ہیں۔ عموما قرآن کا تعلیم مسجدوں اور قریبی مدارس میں سیکھنے کو مل جاتی تاہم متعدد گھرانے ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم کسی اچھے سکول سے ہی دلواتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں پر قرآن کی تعلیم کا کوئی معقول بندوبست نہیں ہوتا اور یہ بچے اس اہم ترین تعلیم سے کورے رہے جاتے ہیں۔
ہم اس بات کو باخوبی جانتے ہیں کہ گورنمنٹ نے سکولوں میں اسلامیات کے لئے الگ الگ اساتذہ کا انتظام کیا ہوا ہے تاہم آج تک کسی بھی سکول میں قرآن مجید کے لئے کسی قاری کا اہتمام دیکھنے میں نہیں آیا۔
پاکستان کے بننے کے شروع کے دنوں میں یہ اہتمام رہا تاہم وقت کے ساتھ ساتھ وہ قاری غیر ضروری ہوتے گئے اور پھر قاری کی سیٹ ہی ختم کردی گئی۔ اب ہمارے لئے یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ جس سائنس کا قرآن مجید سے دائمی و قائمی رابطہ تھا ہم نے اسے پہلے علم کا نام دیا پھر اسے قرآن سے الگ کیا اور پھر اسے انگریزی میں تبدیل کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے اپنے کردار کو ایسے پیش کیا کہ اہل قرآن اور مولوی کو ہم نے معاشرے سے الگ کردیا۔یہیں وجہ ہے کہ ایک قاری اور عالم کا بیٹا خود کو عالم یا قاری بنانے کی بجائے ایف ایس سی، بی ایس سی، ڈاکٹریٹ یا انجینئرنگ کی ڈگریوں کو ترجیح دیتا ہے، کیوں کہ ہمارا معاشرے اسے کچھ ایسا ہی رویہ دیتا ہے۔
حالانکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ انہیںٹیچنگ یا ویسے اپنے باقی شعبوں میں نمایاں مقام و مرتبہ دیتی، لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ہماری اسی تھوڑی تھوڑی دو گلا پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا آج اسی قرآن یا حدیث سے منسلک لوگ جہاں معزز تھے وہیں دہشت گردی جیسے ناسو کا شکارہوکر نامراد ٹھہرے ۔ گویا جہاں دہشت گردی کے پیچھے باقی وجوہات تھیں وہیں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم نے انہیں تنہا کیا، جس پر وہ انتہائی قدم اٹھانے پر آمادہ ہوئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حفظ القرآن کی مسند سند کو معیار بنایا جائے اور میٹرک پاس کی شرط رکھی جائے، یوں ان قراء حضرات کا ایک الگ این ٹی ایس ٹیسٹ لیا جائے جس میں قرآن مجید کی الگ الگ ان آیات کو زیر ٹیسٹ لایا جائے جن کے اعراب کی تبدیلی سے معانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قراءحضرات کی یہ تعیناتی بھی گورنمنٹ کے باقاعدہ مراحل سے گزر کر سامنے آئے۔ اگر باقاعدہ استاد کی تعیناتی ممکن نہیں تو کم از کم ان اساتذہ کو پابند کیا جائے کہ جو اسلامیات کے مضامین پڑھا رہے ہیں وہ قرآن مجید بھی پڑھائیں۔ اس سے طالب علم قرآن پڑھنا تو جان جائے گا۔ علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہوکر
ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک وقت آئے یہاں بڑی بڑی سیٹوں پر انگلش میڈیم تو ہوں پر کوئی ایسا نہ ہو کہ جسے قرآن آتا ہو۔ اگر یہیں صورتحال رہی تو پھر شاید ہمیں مسلمان کہلوانے کا حق بھی نہ رہے۔ اس لئے وزیر اعلیٰ تعلیم کو اس اہم ترین مسئلہ کی طرف غور کرنا چاہیے۔
تحریر: عرفان جتوئی