تحریر: نورین چوہدری
قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے : ”بے شک اللہ کے نزدیک (پسندیدہ) دین اسلام ہی ہے۔” یعنی یہ وہ دین ہے جس کو رب نے بنی نوع انسان کے لیے پسند فرمایا۔ اسلام کے معانی ”امن و اطاعت ” کے ہیں اور مسلمان وہ ہے جو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جائے اور اس کے تمام احکام کو تسلیم کرے۔ بنیادی طور پر یہ وہی ہدایت ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء علیھم السلام لے کر آئے تھے اس پیغام کے مطابق تمام انسانوں کے اتحاد کی بنیاد یہی دین ہے جو وحی کے ذریعے پیغمبروں کو عطا کیا گیا اور انھوں نے عالم انسانیت تک پہنچایا۔اسلام ہر لحاظ سے جامع و مکمل دین ہے اس میں سے نہ کچھ خارج کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کچھ شامل کیا جا سکتا ہے۔
اسلام ایک نہایت ہی آسان ترین دین ہے مگر افسوس کے ہم نے اسے بہت مشکل بنا دیا ہے۔ قرآن کی تعلیمات اور نبی کریمۖ کی حیات طیبہ ہمارے سامنے ہے اس کے باوجود ہم نے اپنا اپنا الگ اسلام بنا لیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کو اتنا نقصان کسی غیر مذہب قوم نے نہیں دیا جتنا مسلمانوں نے دیا۔
مسلمان بجائے ایک اللہ ، ایک نبی اور ایک قرآن کی اطاعت کرنے کے مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ آج ہماری پہچان ہے ہمارا سنی ہونا، شیعہ ہونا، دیوبندی ہونا اور بریلوی ہونا۔ ہم خود ہی فرقہ واریت میں بٹ کر جب ایک دوسرے کے دشمن بن بیٹھے ہیں تو ہمیں کسی بھارت، کسی اسرائیل یا امریکہ کی ضرورت نہیں۔ آج غیرمذاہب مسلمانوں پر ہنس رہے ہیں۔ ہماری نااتفاقی اور ہماری فرقہ واریت ہمارا مذاق بنی ہوئی ہے۔
علامہ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ :
یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ہو ، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو؟
کہیں فرقہ بندی ہے اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
کیا ہم نے کھی سوچا کہ ہم کیوں تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں ؟ کبھی ہم نے اپنے ذاتی مفاد سے آگے بڑھ کر بحیثیت مسلمان قوم اپنے اجتماعی کردار کے بارے میں سوچا؟ ہم اس ھدایت کو بھول گئے ہیں جو ہمیں ان الفاظ میں ہوئی تھی ” او ر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو او ر تفرقہ نہ کرو”۔ ہم لوگ نماز میں ہاتھ اٹھانے یا نہ اٹھانے، ٹخنے ننگے کرنے یا نہ کرنے اور ظہرین پڑھنے یا نہ پڑھنے کے جھگڑے میں پڑے ہیں۔ اگر ایک فرقے کا کوئی فرد دوسرے فرقے کا کوئی طریقہ اختیار کر لے تو وہ کافر مگر پورے معاشرے کے تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ جب ہندوستانی اور مغربی تہذیب پر چلتے ہیں تو کوئی کافر نہیں ہوتا نہ کوئی فتویٰ لگتا ہے ایسا کیوں ؟ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سب سے پہلے ہم مسلمان ہیں۔
ہم نے دنیا میں اسلام کا اصل چہرہ اپنے ہاتھوں سے مسخ کیا ہوا ہے اس کے باوجود ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور جو ہماری مرضی کے طریقے پر نہیں چلتا اسے نہ صرف ہم اسلام سے خارج کر دیتے ہیں بلکہ واجب قتل بھی سمجھتے ہیں ہمیں سوچنا ہو گا کہ یہ ہم کس راستے پر چل پڑے ہیں، یہ کون سا اسلام ہے جس پر آج ہم عمل پیرا ہیں، کیا ایسا اسلام ہمارے لیے راہِ نجات بن سکتا ہے اور ہم دنیا کے دوسرے مذاہب کو اسلام کا یہی چہرہ دکھا رہے ہیں؟ سوچیے گا ضرور!۔
تحریر: نورین چوہدری