تحریر: محمد صدیق پرہار
کراچی ورلڈ اسلامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اسلامی معاشی نظام غربت کے خاتمے انصاف اوردولت کے یکساں تقسیم پرمشتمل ہے۔جس کے نفاذ کیلئے مختلف مسائل دورکرنے کی ضرورت ہے۔لہذا اسلامی بینکاری کیلئے تیز رفتاری کے ساتھ درست سمت میںکام کرناہوگا۔اسلامی بینکاری کے حوالے سے قائم کی گئی کمیٹی نے گزشتہ دوسال میںنمایاںکام کیا اورمالیاتی شعبے کے ماہرین کی مددسے پاکستان کواسلامی سکوک بینکنگ میں شامل کیا۔اسحاق ڈارکاکہناتھا کہ وزیرخزانہ بنتے ہی اسلامی بینکاری کیلئے قائمہ کمیٹی تشکیل دی ۔وزیراعظم اورمیری خواہش تھی کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری ترقی کرے۔اسلامی بینکاری کیلئے ٣ ایکسیلینس سینٹر قائم کیے جاچکے ہیں۔اوراب اسلامی معاشی نظام کوملک بھرمیں پھیلایا جائے گا۔اسلامی بینکاری غربت کاخاتمہ،سماجی انصاف اوردولت کی منصفانہ تقسیم کانظام فراہم کرے گا جبکہ حکومت اسلامی مالیاتی نظام کی ترقی کیلئے کام کررہی ہے۔وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی ترقی کی نموچارفیصد سے بڑھ کر پانچ فیصدکے قریب آئی ہے۔اورسال دوہزاراٹھارہ میں جی ڈی پی کی شرح نمو سات فیصد تک پہنچ جائے گی۔اسحاق ڈارنے کہا کہ کاش میرے پاس جادوکی چھڑی ہوتی اورمیں فوری طورپر سودی نظام کاخاتمہ کردیتا۔کیونکہ اسلامی مالیاتی نظام میں دین اور دنیا دونوںکا فائدہ ہے۔لہذا پورے مالیاتی اورمعاشی نظام کوچندسال میں اسلامی اصولوں کے مطابق بنانا ہے۔
پاکستان اس لیے معرض وجود میں لایاگیا تاکہ یہاں اسلامی نظام کانفاذ کیاجائے۔ قرارداد مقاصد میں بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ پاکستان میںکوئی بھی قانون قرآن وسنت کیخلاف نہیںبنایا جاسکتا۔ ابھی تک نہ تو پاکستان میں اسلامی نظام لایاجاسکا ہے اورنہ ہی مالیاتی نظام کو اسلامی اصولوں میں ڈھالاگیا ہے۔اسلام کا مالیاتی اورمعاشی نظام منصفانہ بنیادوںپر قائم ہے۔اسلام دولت جمع کرنے سے منع بھی نہیںکرتا اوردولت کسی ایک ہی ہاتھ میں رہنے کی اجازت بھی نہیںدیتا۔ اسلام میں اس بات کوناپسند کیاگیا ہے کہ ایک شخص تو خوب پیٹ بھرکر کھانا کھائے جبکہ اس کا ہمسایہ بھوکا رہے۔اسلام کے مالیاتی اورمعاشی نظام میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔اسلام کے پانچ ارکان میں سے تسرا رکن زکوٰة ہے۔کسی بھی مسلمان کے پاس ضروریات زندگی سے زائد سرمایہ جو نصاب کے مطابق اس پر سال گزرنے پر اڑھائی فیصد زکوٰة واجب ہے۔زکوٰة اداکرنے سے معاشرہ کے محروم طبقات کا بھلا ہوتا ہے۔
اسلام کے مالیاتی نظام میں زکوٰة کی اہمیت کاا ندازہ اس بات سے لگائیں کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف جنگ کاا علان کیا۔خلفاء راشدین کے دور خلافت میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مدینہ منورہ میں زکوٰة لینے والا کوئی نہیں تھا۔خلفائے راشدین نے نظام زکوٰة کے موثر نفاذ سے ایسا مالیاتی اورمعاشی نظام قائم کیاکہ شہر مدینہ کا ہرفرد خوشحال ہو گیا۔ہر شخص کے معاشی حالات اس قدربہتر تھے کہ وہ زکوٰة لینے سے انکارکردیتا تھا۔آج بھی ہم ایمانداری سے زکوٰة ادا کریں اورمستحق لوگوں کو ہی دیں تو آج بھی یہ وقت آسکتا ہے کہ پاکستان میں زکوٰة لینے والا کوئی نہیں رہے گا۔اسلام کے مالیاتی نظام میں زکوٰة کے بعد صدقہ فطر کا نمبر آتا ہے ۔اسلام میں صدقہ فطر کی ادائیگی کواس لیے ضروری قراردیاگیا ہے کہ ایسے افراد جو مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے عید کی خوشیوںمیں شامل نہیں ہوسکتے تو وہ مجبوراوربیکس افرادفطرانہ وصول کرکے عید کی خوشیوںمیں شامل ہوجائیں۔
صدقہ فطر کی اہمیت اوراس کے اجر و ثواب کو دیکھتے ہوئے علماء کرام کہتے ہیں کہ جس پر صدقہ فطر واجب نہیں وہ بھی اداکرے۔صدقہ فطر کے بعد قربانی کی کھالوںکانمبر آتا ہے۔قربانی کی کھالیں بھی غریب، مسکین، یتیم، معذور، مستحق کو دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔زکوٰة، صدقہ فطر اورچرمہایے قربانی کا سب سے پہلا حق دار وہ مستحق ہے جو سب سے نزدیک رہتا ہو۔ایسا قریبی رشتہ دار یا محلہ دار جو مستحق افراد کی فہرست میں آتا ہو وہ اس صدقات کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔زکوٰہ ہو یاصدقہ فطر یا قربانی کی کھالیں ہوں یہ کوئی بھی مسلمان خود استعمال نہیںکرسکتا۔کسی بھی مسلمان کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ زکواة اورصدقہ فطر کی رقم اور قربانی کی کھال فروخت کرکے اس کی قیمت خود خرچ کرے۔اسلام کے مالیاتی نظام میں نفلی صدقات کی بھی بڑی اہمیت ہے۔مسلمان سال بھر صدقہ خیرات کرتے رہتے ہیں۔واجب صدقات ہون یانفلی ان کے نفاذ اورادائیگی کا واضح مقصد یہ ہے کہ معاشرہ کے مالی اورمعاشی لحاظ سے کمزور افرادکی مدد کرکے ان کو سماجی ڈھانچے میں شامل کیا جائے۔اسلام میں جہاں معاشی اورمالی لحاظ سے کمزور افرادکی مددکرنے ان کے معیارزندگی کوبلند کرنے اوران کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے وہاں ان مجبور اوربے کس افرادکی مجبوریوںسے ناجائز فائدہ اٹھانے کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
اس لیے اسلام میں سود کی سخت ممانعت آئی ہے۔سود لینے واالا، دینے والا ، لکھنے والا، دونوں کے درمیان سودسے متعلق معاملات طے کرانے والا سب دوزخی ہیں۔سود خوری بڑے بڑے ستر گناہوں کے برابر ہے۔ ان ٧٠ گناہوںمیںسے کم تر درجے کاگناہ یہ ہے کہ انسان اپنی اصلی ماں کے ساتھ زناکرے۔سود خور بھی انسان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔سود پر لیاجانے والا قرضہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ مقروض ادائیگیاں پہ ادائیگیاں بھی کرتا رہتا ہے اوراس پر قرضہ بھی ویسا کا ویسا ہی رہتا ہے۔رشوت لینے والا اوردینے والا بھی جہنمی ہیں۔اب آتے ہیں اسحاق ڈارکی باتوں کی طرف۔وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم اورمیری خواہش ہے کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری ترقی کرے ،کاش میرے پاس جادوکی چھڑی ہوتی اورمیں فوری طور پر سودی نظام کا خاتمہ کردیتا۔قارئین اس بات کی تصدیق کریں گے کہ خواہش تو وہ کرتا ہے جو کچھ نہیںکرسکتا۔جس کے پاس وسائل یا اختیارات نہ ہوں۔
ایک مسلمان ہے اس کے معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیںد یتے کہ وہ سعودی عرب جاسکے۔اب وہ خواہش کرتا ہے کہ کاش اس کے پاس اتنا سرمایہ آجائے کہ وہ عمرہ یا حج اداکرسکے۔جس کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ وہ حج کے اخراجات اداکرسکے تو وہ حج کرنے کی خواہش نہیںکرسکتا بلکہ حج اس پر فرض ہوچکاہوتا ہے اس کیلئے حج اداکرنا ضروری ہوجاتا ہے۔اسی طرح وزیراعظم اوراسحاق ڈار کے پاس اختیارات اوروسائل موجود ہیں ۔ انہیں خواہش نہیں اس پر عمل کراناچاہیے۔وزیراعظم اوروزیر خزانہ چاہیں تو سودی بینکاری ختم کرکے اسلامی بینکاری قائم کرسکتے ہیں۔یہ آج ہی بینکوںمیں سودی لین دین پر پابندی لگا سکتے ہیں۔بینکوں سے قرضہ لینے والوں کے ذمہ جتنا بھی سود باقی ہے وہ سب معاف کیا جاسکتا ہے۔ایسے تمام مقروض جن کی طرف سے دیے گئے سود کی مجموعی رقم اصل قرض کے برابر یا اس سے زیادہ ہوچکی ہے ان سے قرض بھی وصول نہ کیا جائے۔ہر دور حکومت میں لوگوںکوروزگارکمانے کیلئے مختلف سکیمیں جاری ہوتی رہتی ہیں۔ روزگار کمانے کیلئے کبھی قرضے بھی دیے جاتے ہیں،کبھی رکشے اورکبھی ٹیکسیاں دی جاتی ہیں۔
ان سکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں سے اصل قیمت یا قرض کے ساتھ ساتھ مختلف شرح سے سود بھی وصول کیا جاتا ہے۔وفاقی اورصوبائی حکومتیں جب بھی کوئی ایسی سکیم متعارف کرائیں جس سے قرضہ دینا ہو،رکشے، ٹیکسیاں اورکوئی اورایسی چیز دینی ہو تو اصل قیمت ہی وصول کریں اس پر سود نہ لیں۔آئندہ جب بھی اس طرح کی سکیم چلائی جائے تو وہ سود کے بغیر ہونی چاہیے۔ کاشتکاروں کو بھی سود پرقرضے دیے جاتے ہیں۔کاشتکاروں کو آئندہ بلا سود قرضے دیے جائیں۔وزیراعظم اوروزیر خزانہ اورکچھ نہیںکرسکتے وہ اتناتو کرسکتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی سکیم کے تحت قرضے دیں ، رکشے یا ٹیکسیاں ان پر اصل قیمت ہی وصول کریں سود کسی سے نہ لیں۔حکومت ایسے لوگوں کے روزگارمیں حصہ داربھی بن سکتی ہے ۔حکومت کی کسی بھی سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کے کاروبارکے منافع میں حکومت اس میں پانچ سے دس فیصد کی سالانہ حصہ دار ہو اس بات کو یوں سمجھ لیںکہ کسی کا خالص منافع ایک لاکھ روپے سالانہ ہو تو وہ پانچ سے دس ہزار روپے بیت المال میںجمع کرائے تاکہ اس رقم سے مزید بے روزگار افرادکے روزگار کا اہتمام کیاجاسکے۔اس کے برعکس کسی کا کاروبارنہیں چلتا۔
نفع کی بجائے نقصان آرہا ہے یا کسی بھی حادثہ کی وجہ سے کاروبارختم ہو جائے تو حکومت اس کومزید قرض فراہم کرے اورسابقہ قرض معاف کردے۔یوں سرمایہ ریاست کا ہوگا اورکاروبارعوام کریں گے۔ یہ کام جائز بھی ہے اورحلال بھی ۔کڑی نگرانی کانظام بھی وضع کیاجاناچاہیے تاکہ کوئی بھی غلط بیانی سے کام نہ کرسکے۔حکومت اورعوام میں نفع نقصان کی بنیادوں پر کاروبارمیں شراکت دس سال کیلئے ہونی چاہیے۔اس کے بعد حکومت کی شراکت ختم ہوجائے اورکاروبارکرنے والا تنہا اپنے کاروبارکامالک ہو۔اسی طرح جب کاشتکاروںکوقرضہ دیا جائے تو ان سے سود وصول کرنے کی بجائے ان کے ساتھ پیداوار میں شراکت کا معاہدہ کیا جائے۔ ضروری اخراجات اور کاشتکار کی مزدوری کے بعد جو پیداوار بچے اس میں سے دس فیصد حکومت وصول کرے اورباقی پیداوارکسان کی ملکیت ہونی چاہیے۔حکومت دس سال پیداوارمیںسے حصہ وصول کرے اس کے بعد قرض کی رقم کاشتکار کی ملکیت ہوجائے۔نقصان ہونے کی صورت میں حکومت نقصان پوراکرے۔وزیراعظم اوروزیر خزانہ سود کوختم کرکے نفع نقصان کی بنیاد پر نظام قائم کرلیں تو ملک میںمعاشی انقلاب آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ملک میں اسلامی مالیاتی نظام قائم کرنے کیلئے زکوٰة کا نفاذ اور سود کا خاتمہ بہت ضروری ہیں۔
زکوٰة کی وصولی کیلئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح سخت پالیسی اپنائی جائے۔زکوٰة کی ادائیگی کا ایسا منصفانہ نظام نافذ کیا جائے کہ کوئی ایسا مستحق نہ رہے جس کو زکوٰة نہ ملی ہو اورکسی ایسے شخص کوبھی زکوٰة نہ دی جاسکے جو اس کا مستحق نہ ہو۔حکومت پاکستان ملک میںزکوٰة کا ایسا نظام نافذ کرنے میںکامیاب ہو جاتی ہے تو وہ وقت دورنہیں کہ ملک میں اس قدرخوشحالی آجائے گی کہ زکوٰة لینے والا کوئی نہیں رہے گا۔اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان سودی بینکاری نظام ختم کرکے اسلامی بینکاری نظام بھی نافذ کردے تو پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتارتیز سے تیز تر ہوجائے گی۔سود اوررشوت کی نحوست نے ہماری معیشت کوترقی کرنے سے روک رکھا ہے۔ ان تمام اقدامات کیلیے کسی جادوکی چھڑی کی ضرورت نہیں ۔ اخراجات پورے کرنے اوربجٹ خسارہ کم کرنے کیلیے حکومتوںکوعالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے پڑتے ہیں اورانہیں سود بھی دینا پڑتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ایسے مالیاتی اداروں سے قرض لیاہی نہ جائے جن کوسود دینا پڑے ۔ اسلامی ملکوں کے اپنے مالیاتی ادارے ہونے چاہییں جو کمزورمعیشت والے اسلامی ممالک کو بغیرسود آسان اقساط میں قرضے فراہم کریں۔
ایسے تمام اسلامی ممالک جن کی معیشت مضبوط ہے وہ اسلامی ملکوں کے ایسے مالیاتی اداروںکوسرمایہ فراہم کریں تاکہ کسی بھی اسلامی ملک کو عالمی بینک یا آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت نہ پڑے۔اسلام کے مالیاتی نظام میںمزدورکی مزدوری فوری طورپر اداکرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔حرام مال پر پلنے والے کی کوئی عبادت قبول نہیںہوتی۔سود اوررشوت دونوں حرام ہیں ۔اسلام کے مالیاتی نظام میں ناجائز منافع خوری اورذخیرہ اندوزی کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔کیونکہ اس سے لوگوںکا ناجائز استحصال ہوتا ہے۔ اسلام کا مالیاتی نظام ہی دنیا کا بہترین مالیاتی نظام ہے۔اس نظام میں تمام طبقات کے حقوق اورضروریات بھی خیال رکھا گیا ہے اوراس نظام میں کسی کا استحصال بھی نہیں ہوتا۔اسلام کے مالیاتی نظام میں دھوکہ دہی، فراڈ، چوربازاری، گراں فروشی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔سامان تجارت میں موجود عیب کو چھپانے کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔حکومت ملک کا مالیاتی نظام اسلامی مالیاتی نظام میں ڈھالنے کیلئے فوری اورموثر اقدامات کرے۔اسلام کامالیاتی نظام ترقی اورخوشحالی کا امین ہے۔دنیا نے سرمایہ دارانہ سمیت دیگر مالیاتی نظاموںکاانجام بھی دیکھ لیا ہے۔جس سے اسلام کے مالیاتی نظام کی افادیت اوربھی واضح ہوجاتی ہے۔
تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com