تحریر: نعیم الرحمان شائق
بلجیم کا دارالحکومت برسلز دھماکوں سے لرز اٹھا۔ نتیجے میں 37 ہلاک اور 200 زخمی ہوئے۔ برسلز کا شہر اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہ نیٹو کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے ۔ مبصر کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعہ دوسرا نائین الیون ثابت ہو گا۔ ہماری دعا ہے کہ ایسا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ امت ِ مسلمہ پر رحم فرمائےآمین۔
14 اگست ہو یا 23 مارچ یا کوئی اور قومی دن ہو ، نظریاتی بحث میں الجھنا ہمارے دانش وروں کی عادت بن چکی ہے۔ نظریاتی جنگ بھی بہت بڑی جنگ ہوتی ہے۔ اس سے انسانوں کا خون تو نہیں بہتا۔ البتہ نفرتیں ضرور پروان چڑھتی ہیں۔ہم کئی اقسام میں منقسم ہیں۔ اس لیے آج کل ہمیں قوم نہیں ، بلکہ جتھا یا ریوڑ کہا جاتا ہے۔ان دنوں فرقہ وارانہ بحث سے زیادہ “اسلام یا سکیولر ازم” پر بحث ہوتی ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ عوام کا مزاج مذہبی ہے ۔ جب کہ دانش وروں کا مزاج مذہبی نہیں ہے ۔ ہمارے دانش ور پاکستان کو ایک سکیولر یا لبرل ریاست دیکھنا چاہتے ہیں ۔ جب کہ عوام یہ نہیں چاہتے ۔ دانش ور سمجھتے ہیں کہ عوام کا جھکاؤ سکیولر ازم کی طرف اس لیے نہیں ہے ، کیوں کہ وطن ِ عزیز میں ملائیت کی اجارہ داری ہے۔ یہ مولوی عوام کو سکیولر ازم کے خلاف بھڑکاتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ میڈیا کے زیادہ تر حصے پر دانش وروں کی اجارہ داری ہے ، مگر اس کے باوجود وہ عوام کا جھکاؤمذہب کی طرف سے ہٹا کر سکیولر ازم کی طرف نہ کر سکے ۔انھیں سوچنا چاہیے ان کی کوششیں با ر آور ثابت کیوں نہیں ہو رہیں۔
مذہبیوں اور سکیولر حضرات کے درمیان ایک وسیع خلیج ہے۔ یہ خلیج روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے ۔ اس دوری کے کیا نتائج نکلیں گے ، فی الوقت مذکورہ بالا دونوں قسموں کے حضرات اس سے بے خبر ہیں ۔ ہم پہلے سے منقسم تھے۔ مذہب اور سکیولر ازم کی جدید نظریاتی کش مکش نے ہمیں مزید تقسیم کر دیا ہے۔ حال یہ ہے ایک مذہبی اور ایک سکیولر شخص ایک ساتھ بیٹھ نہیں سکتے۔ جب دلوں میں نفرتیں اور کدورتیں گھر کر لیں تو یوں ہی ہوتا ہے ۔زمانے کے انداز دیکھتے ہوئے ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اس طرح کی نفرتوں اور کدورتوں کے متحمل ہو سکتے ہیں۔
23 مارچ کو ایک پروگرام میں ایک دانش ور نے کہا، قرارداد ِ پاکستان دراصل قرار داد ِ لاہور کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ قرار داد ِ پاکستان میں کسی اسلامی ریاست کا ذکر نہیں ہے ۔”مانا کہ مولوی مذہب کے معاملے میں جذباتی ہوتا ہے ۔مولوی حضرات ، شاعر ِ مشرق ، علامہ محمد اقبال کو بہت پسند کرتے ہیں ۔ اپنی تقریروں میں ان کے اشعار لہک لہک کر پڑھتے ہیں ۔ مگر اقبال مولویوں کو اتنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ ان کا شعر ہے:
گلا تو گھونٹ دیا اہل ِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الااللہ
“ملاکی اذاں اور ، مجاہد کی اذاں اور” کہنے والے بھی اقبال تھے ۔ مولوی جذباتی اور عصر سے نا اہنگ ٹھہرا ۔ مگر ان دانش وروں کو کیا ہوا ، جو آئے روز نظریاتی بحث چھیڑ کر قوم کو مزید الجھن میں ڈالتے ہیں ۔ ایسی بحثوں کے لیے قومی دن چنے جاتے ہیں ۔ قومی دن قوموں کو جوڑنے کے لیے ہوتے ہیں ۔ ایسے دنوں میں توڑنے کی بجائے جوڑنے کی بات کی جائے تو اچھا ہے۔
کئی مسائل بکھر ے پڑے ہیں ۔ سندھ میں کچی شراب پینے سے تین درجن سے زائد لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں ۔تھر سے روزانہ ہلاکتوں کی اطلاعات آتی ہیں ۔ پاکستان کا معیار ِ تعلیم اچھا نہیں ہے ۔ مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے ۔ گھریلو جھگڑوں میں ہلاکتوں کی خبریں پریشان کر ر ہی ہیں ۔ یہ اور اس جیسے کئی موضوعات ہیں ، جن پر کئی پر و گرام کیے جا سکتے ہیں ۔ یہ ہمارے بنیادی موضوعا ت ہیں ۔ ایسے موضوعات کی موجودگی میں مذہب اور سکیولر ازم کا موضوع چھیڑنا عجیب محسوس ہوتا ہے ۔ہمارے دانش وروں اور مذہبی طبقے کو ان موضوعات پر لکھنا اور بولنا چاہیے۔ یقین کیجیے اس سے زیادہ عوامی پزیرائی ملے گا۔
یہ تو حقیقت ہے کہ قیام ِ پاکستان میں اسلامیت کا جذبہ کار فرما تھا ۔ قیام ِ پاکستان سے قبل برصغیر کے مسلمان ایک ایسے خطہ ِ پر امن کے متلاشی تھے ، جہاں وہ پرسکون انداز میں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو سکیں ۔ سکیولر حضرات بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناحؒ کی 11 اگست 1947 ء والی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہیں ۔ اس کے بر عکس مذہبی لوگ کئی ایسی تقریروں کےحوالےدیتے ہیں ، جن میں انھوں نے اسلام کی بات کی ہے ۔ ہمارے قومی شاعر ، عظیم فلسفی اور شاعر ِ مشرق کا ایک شعر بڑا مشہور ہے :
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے تو اس معاملے میں مذہبی لوگوں کی دلیل سکیولر حضرات سے زیادہ قوی نظر آتی ہے ۔ اس کے با وجود بھی میں سمجھتا ہوں کہ دونوں قسموں کے ان لوگوں کو نظریاتی بحث میں نہیں الجھنا چاہیے ۔کچھ موضوعات حساس ہوتے ہیں ۔ یہ بھی ایک حساس موضوع ہے ۔ایک دوسرے کے جذبات کے احترام کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔
ملک کے سکیولر دانش وروں کی دیکھا دیکھی میں ہمارا حکم ران طبقہ بھی لبرل ازم اور سکیولر ازم کی بات کر رہا ہے ۔ یعنی وہ بھی قوم کو تقسیم در تقسیم کے عمل میں شامل ہو چکا ہے ۔ ہمارے وزیر ِ اعظم نے پاکستان کو لبرل ملک بنانے کی بات کی تو اس پر کافی لے دے ہوئی ۔پنجاب حکومت نے تحفظ ِ نسواں بل منظور کیا تو ملک کی 25مذہبی جماعتیں متحد ہوگئیں ۔ ان کے خیال میں یہ بل لبرل ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے منظور کیا گیا ہے ۔ سندھ حکومت نے 24 مارچ کو ہندووں کے مذہبی تہوار ہولی پر عام تعطیل کا اعلان کر دیا ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 24 مارچ کو سندھ کے علاقے عمر کوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف قانون سازی کریں گے ۔ بھارت میں اقلیتی برادری والا شخص صدر ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں بن سکتا ۔ بلاول کے نانا اور پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے جو آئین ملک و قوم کو دیا تھا ، اس میں بلاول بھٹو زرداری کی اس خواہش کی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان کا صدر غیرمسلم ہو۔
کچھ موضوعات پر جبرا ََلکھنا پڑتا ہے۔ یعنی نہ چاہتے ہوئے بھی لکھنا پڑتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آج میں نے جس موضوع پر لکھا، وہ ایسا ہی ایک موضوع ہے۔کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی عوامی موضوع پر لکھوں۔ لیکن جب سکیولر ازم اور مذہب کی بحث دیکھتا ہوں تو خود بہ خود اس موضوع پر لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ میرے خیال میں ان موضوعات پر تبصرہ آرائی سے قبل دیگر اہم اور بنیادی موضوعات پر لکھنا اور بولنا چاہیے۔ اگر اس طرح کی بحث ہو بھی تو جذبات سے ہٹ کر اپنا نقطہ ِ نظر دینا چاہیے۔ تاکہ نفرتیں پروان نہ چڑھیں۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق
پتا: کراچی
رابطہ: 03212280942
ای میل:
shaaiq89@gmail.com
ایف بی:
fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq