تحریر: سجاد علی شاکر
تاریخ گواہ ہے کہ پہلے ہر طالب علم کیلئے لازمی ہوتا تھا کہ وہ کسی استاد کی خدمت میں رہ کر علم حاصل کرے۔ بغیر استاد کے عموماً یہ تصور ہوا کرتا تھا کہ ”بے استاد طالب علم بے دین ہے جس نے شیطان کو اپنا رہنما بنا لیا ہے۔ حضرت امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص کتابوں سے علم حاصل کرتا ہے اسے وہ امتیاز حاصل نہ ہو گا جس کی اسے ضرورت ہے”۔ گویا استاد کا وجود’ استاد کی سیرت’ اس کے فضائل اور عمومی رویے شاگرد کی تربیت اور تہذیب نفس میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں اس سلسلے میں ہم حضور نبی اکرم کی مثال دیتے ہیں جو اپنی امت کے راہبر بھی تھے اور پیغمبر تھے۔
استاد بھی اپنے شاگردوں کیلئے ایک راہبر کی حیثیت رکھتا ہے حضور کا حکم ہے کہ ”مسلمان کو تمام عمر حصول علم میں صرف کرنی چاہئے” انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور پھر ماں اپنے جگر کا ٹکڑا استاد کے حوالے کر دیتی ہے اور استاد اس کے لئے پوری دنیا کو ایک درسگاہ بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔ باپ بچے کو زمین پر قدم قدم چلنا سکھاتا ہے ، استاد اسے دنیا میں آگے بڑھنا سکھا تاہے۔ استاد کا کردار معاشرے میں بہت اہم ہے۔معلّمی وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام میں نہیں بلکہ ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔
اسلام میں تعلیم کے بنیادی اصول یہی ہیں کہ انسان ایک دوسرے سے حسد نہ کرے اور اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھے۔ اسلام میں نظریہ تعلیم کا بنیادی تصور یہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے زندگی بسر ہو اللہ کی خوشنودی کیلئے جینا اور مرنا ہو۔ علامہ محمد اقبال لکھتے ہیں کہ انسان جب اپنے رب کو پہچان لیتا ہے خدا کی وحدانیت کو سمجھ لیتا ہے تو پھر اس کے دل سے تمام خوف نکل جاتے ہیں اس کا ہر عمل رضائے الٰہی کا تابع ہو جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور کو بحیثیت معلم بیان کیا اور خود نبی کریمۖ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے” امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے، تو آپ نے فرمایا کہ ”کاش میں ایک معلم ہوتا’۔ استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کہتے ہیں کہ ” استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے۔
علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کے یہ الفاظ معلم کی عظمت و اہمیت کے عکاس ہیں۔”استاد در اصل قوم کے محافظ ہیں۔کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور انکو ملک کی خدمت کے قابل بناناانہیں کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگذاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگذاری ملک کے معلموں کی کارگذاری ہے۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے۔کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسکے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اسکی محنت ہے۔ معلم فروغ علم کا ذریعہ ہے۔لیکن اس کے علم سے فائدہ و ہ نیک بخت اْٹھاتے ہیں۔جنکے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں۔کیونکہ :الادب شجر والعلم ثمر فکیف یجدون الثمر بدون الشجر۔”ادب ایک درخت ہے اور علم اسکا پھل۔اگر درخت ہی نہ ہوتو پھل کیسے لگے گا؟” تعلیم روحانی ، ذہنی اور جسمانی ہر طرح کی ہوتی ہے اور اس طرح ہم اشرف المخلوقات کے درجے تک پہنچتے ہیں۔
معاشرتی زندگی کے جن شعبوں پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے، ان میں حصول علم نہایت نمایاں ہے۔ کیوں کہ تعلیم انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے اور اْسے معاشرے کا ایک قابل قدر عنصر بنانے میں مدد دیتی ہے، اور علم کی راہ پر منزلوں کا حصول ”استاد” کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یہ استاد ہی ہے جس نے ایک فرد کی تربیت کی اور اس کی ذہنی نشوونما کا فریضہ سرانجام دینا ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ استاد کو معاشرہ میں اس کا جائز مقام دیا جائے۔ معاشرتی خدمات کے عوض معلم کا حق بنتا ہے کہ اسے سوسائٹی میں نہ صرف اعلیٰ مقام دیا جائے بلکہ اس کے ادب و احترام کو بھی ملحوظ خاطر رکھاجائے۔ لیکن۔۔۔! یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ ہر مذہب اور معاشرے میں استاد کو ملنے والی اہمیت کیا اس بات کی متقاضی نہیں کہ معلم خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرے؟ استاد معاشرہ کا وہ حصہ ہے جہاں اخلاقی اقدار کو بام عروج نصیب ہوتا ہے۔آج ایک پولیس مین کے آنے سے پورا محلہ کانپ اٹھتا ہے۔مجسٹریٹ کا رعب و دبدبہ افراد پر کپکپی طاری کر دیتا ہے۔
لوگ پولیس والے ،مجسٹریٹ،جج اور دیگر افسران کے برابر بیٹھنا اْس کی بے ادبی تصور کرتے ہیں۔لیکن استاد جس کی محنت ،کوشش اور شفقت سے یہ افراد ان بالا عہدوں پر فائز ہیں اْن کی قدر معاشرہ کرنے سے قاصر ہے۔حکومت اساتذہ کو ”سر” کا خطاب دینا چاہتی ہے ،سلام ٹیچر ڈے منایا جاتا ہے۔مگر افراد کے دل میں حرمت اساتذہ ناپائید ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کا جائزمقام معاشرہ میں بحال کرتے ہوئے حکمران اپنے اسلاف کی زندگیوں سے راہنمائی لیتے ہوئے ان کی معاشی حالت بہتر بنائیں۔اساتذہ کی عظمت معاشرہ میں بحال ہونے سے شرح خواندگی میں اضافہ ہو گا اور اساتذہ کی معاشی حالت بہتر ہونے سے اساتذہ اپنے منصب پر فرائض کی انجام دہی پورے لگن سے کریں گے جس سے علمی انقلاب اور ملکی ترقی کی راہیں کھلیں گی۔
پاکستان میں اساتذہ اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرتے ہیں۔مطالبات تسلیم نہ ہونے پر تعلیمی بائیکاٹ ہوتا ہے اور سڑکوں پر بھوک ہڑتالی کیمپ لگتے ہیں۔اس احتجاج کو روکنے کے لئے انہی کے شاگردان پر لاٹھیاں برساتے ہیں۔کیا یہی استاد کا مقام ہے؟ حکومت حقوق اساتذہ پورے کرنے کیلئے احتجاج کا انتظار کیے بغیر ان کا معاشی،معاشرتی اور ملی مقام بحال کرنے کیلئے قانون سازی کرے تاکہ ملک و ملت نظریہ پاکستان و نظریہ اسلام کو پروان چڑھاسکے۔اللہ ہم سب کو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام اور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
تحریر: سجاد علی شاکر: فنانس سیکرٹری پنجاب کالمسٹ کونسل آف پاکستان(ccp)
sajjadalishakir@gmail.com.03226390480