تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
آپ نے عاشق کی بارات دیکھی؟۔ وہ گیت سنے جو اللہ اکبر، اللہ اکبر کی مدھر تانوں سے فضاؤں کو معطر کر رہے تھے؟۔ آپ نے لاکھوں انسانوں کی وہ پُکار سُنی جو کلمۂ شہادت کی صورت میں آسمانوں کی وسعتوں کو چِیرتی ہوئی اَوجِ ثریا تک پہنچ رہی تھی؟۔ آپ نے رکاوٹیں تو بہت کھڑی کیں اور زور بھی بہت مارا لیکن ممتاز تو پھر بھی سب سے ممتاز ہی رہا کہ وہ سَچّا اور سُچّا عاشق تھا اور عاشق کا جنازہ تو دھوم سے نکلناہی تھا۔ پتہ نہیں لاکھوں لوگ کہاں سے نکل آئے کہ تاحد ِ نظر سَر ہی سَر ،بے خوف خطر ۔بات جب دینِ مبیں کی ہو تو پھر کِس بات کا خوف اور کاہے کا ڈَر ۔ یہ تھا اُس عاشقِ رسولۖ کا جنازہ جس نے یہ ثابت کر دیا کہ عشقِ رسولۖ کی شمع اب بھی ہر دِل ،ہر گھر اور ہر دَرپہ روشن ہے اور حکمران چاہے کتنے بھی لبرل ہو جائیں وہ حبّ ِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دِلوں سے مٹا نہیں سکتے۔
فیڈرل شریعت کورٹ نے تو 30 اکتوبر 1990ء کو ہی فیصلہ دے دیا تھا کہ رسول اللہۖ کی شان میں گستاخی کی سزا موت ہو گی اور کسی کو بھی اِس سزا میں کمی بیشی کا اختیار نہیں ہوگا ۔ سپریم کورٹ نے بھی شریعت کورٹ کا ہی فیصلہ بحال رکھا۔ پھر کیا پنجاب کے گورنر کو توہینِ رسالت کے قانون پر نشترزنی کا حق تھا؟ ۔جب قانون کے محافظ ہی قانون پرنشتر زنی کرنے لگیں اور قانون بھی وہ جس کابراہِ راست تعلق میرے آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے ہوتو پھرایسا انجام اظہرمِن الشمس۔سلیمان تاثیر کامقدمہ اب ربّ ِ لَم یَزل کی عدالت میں اور تحقیق کہ اُس سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں کر سکتا، سوال مگر یہ ہے کہ کیا سلیمان تاثیرنے توہینِ رسالت کے قانون پر غیر محتاط تبصرے کرکے عاشقانِ رسولۖ کے دلوںکو زخمی نہیں کیا؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہماراآئین ،ہمارا قانون، ہمارے حکمران اورہ ماری عدالتیں اُس وقت کہاں سوئی ہوئی تھیں جب سلیمان تاثیر سرِعام غیر محتاط تبصرے کر رہے تھے۔ حیرت ہے کہ کسی کواُس وقت ازخود نوٹس لینے کا بھی خیال نہ آیا۔ پھر وہ اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل ہو گیا کہ محافظ جذبات کے بھڑکتے الاؤ پر قابونہ پا سکا۔
ممتاز قادری نے قانون کو ہاتھ میں لیا جس کی دینِ مبیں بھی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔یہ کام تو حکمرانوں کا تھا جِسے انجام دیا ممتاز قادری نے ۔مقدمہ چلا، سزائے موت ہوئی اور پھر عاشقِ رسولۖ کو تختۂ دارپہ لٹکا دیا گیا ۔اُس کی روح تو یقیناََ حکمرانوں کہ شکر گزار ہوگی کہ مومن کا تو مطلوب ومقصودی شہادت ہوتا ہے ۔ ممتاز قادری کا جسدِ خاکی دیکھتے ہوئے نہ جانے کیوں مجھے فیض احمدفیض کا یہ شعر بار باریاد آرہا تھا کہ
کرو کَج جبیں سے سرِ کفن ، میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مَرگ ہم نے بھلا دیا
اگر میرے بَس میں ہو تو مَیں شہید کی لَوحِ مزار پہ یہ ضرور کندہ کروادوں کہ
جس دَھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اِس جان کی کوئی بات نہیں
حکمرانوں سے سوال ہے کہ ممتاز قادری نے سلیمان تاثیر کو قتل کیا اور اُسے پاکستانی قانون کے مطابق اپنے کیے کی سزابھی مِل گئی لیکن کِس خوف کے تحت اُس کی پھانسی کواتنا خفیہ رکھا گیا؟۔ صد آفرین پیمراپر کہ اُس نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنے احکامات کی دھاک بٹھادی اور میڈیا خاموش ”ٹُک ٹُک دیدم ،دَم نہ کشیدم” کی عملی تصویر بنا رہا ۔پیمراکے احکامات پرسختی سے عمل درآمدنے یہ سوال اُٹھا دیاکہ اگر پیمرا اتناہی طاقتور ہے تو پھرالیکٹرانک میڈیا پر دکھائی جانے والی لَچر فلموں اور بیہودہ ڈراموں کو بند کیوں نہیں کروا سکتا؟۔ پھر مزاح کے نام پر دکھائے جانے والے شوز میں پھکڑپَن اور ذومعنی جملے بند کیوں نہیں ہوتے؟ پھر اخلاق باختہ گانوں پر پابندی کیوں نہیں لگتی؟۔
کہیں یہ اُس ”لبرل پاکستان” کاشاخسانہ تو نہیں جس کانعرہ ہمارے وزیرِاعظم صاحب نے صرف اُن طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے لگایا جو کبھی پاکستان کی دوست تھیں ،ہیں اورنہ کبھی ہوںگی ۔اُنہوںنے ”ہولی” کے رنگوںمیں رنگے جانے کی خواہش کا اظہار کرکے اور پاکستان کی بقا و ترقی کو لبرل ازم سے منسوب کر کے کسی اور کا نہیں، اپناہی نقصان کیا۔ اُن کے چاہنے والے پریشان کم اورحیران زیادہ ہوئے ۔وہ تویہ سمجھ بیٹھے تھے کہ پاکستان کی مٹی سے محبت کرنے والے میاںصاحب مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی بناپر دینِ مبیں سے محبت کرنے والوںکی غالب اکثریت اُنہیں اپنے ووٹوںسے نوازتی تھی۔
اب اگر کوئی اُن سے یہ کہہ دے کہ میاں صاحب تو”اسلامی پاکستان”کی بجائے ”لبرل پاکستان” کے داعی ہیں تواُن کے پاس کیا جواب ہوگا۔ میاں صاحب نے اپنے آپ کو لبرل ثابت کرنے کے لیے شرمین عبید کو وزیرِاعظم ہاؤس میں دعوت دی ،اُس کی ”دی گرل اِن دی ریور” دیکھی اور تحسین کے کلمات اداکیے ۔اُن کے میڈیاسیل نے اُن کوبتاہی دیا ہو گا کہ اِس آسکرایوارڈ پرشرمین عبید کے خلاف کتنے کالم لکھے جارہے ہیں۔ توکیاہم دست بستہ یہ عرض کرنے کی جسارت کر سکتے ہیں
کم ہوں گے اِس بساط پر اُن جیسے بَد قمار
جو چال بھی چلے وہ نہایت بُری چلے
”لبرل ازم” کے حامیوںکی منافقت پربھی حیرت ،صرف حیرت ۔یہ ”کھُلے ڈُلے” لوگ تو سزائے موت کے خلاف تلواریں سَونت کرمیدان میں نکلے ہوئے تھے ،پھر ممتازقادری کی پھانسی کی حمایت کیوں؟۔ مغرب زدہ NGO’s بھی سزائے موت کے خلاف ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر نعرے لگاتی اور احتجاج کرتی رہتی ہیں۔ وہ ممتازقادری کی پھانسی پر خوش کیوں؟۔ ہم نے تو ممتاز قادری کی پھانسی کو قبول کر لیاکہ قانون کا تقاضہ یہی تھا اور دینِ مبیں کا حکم بھی یہی ۔چشمِ فلک نے دیکھا کہ جنازے میں لاکھوں لوگوں کی شرکت کے باوجود ایک پتہ تک نہ ٹوٹا البتہ لبرل اور سیکولر لوگوں کی منافقت کھُل کر سامنے آگئی اوراُن کا دوہرا معیار بھی سب پر عیاں ہو گیا۔
حرفِ آخریہ کہ ہمیںاب بھی حکمرانوں سے ہمدردی ہے اورہمارا حسنِ ظن بھی یہی کہ وہ ملک کی تقدیربدل سکتے ہیںاِس لیے ہم تویہی عرض کریں گے کہ ”ابھی وقت ہے ، سنبھل جاؤ”۔کہیں ایسانہ ہوکہ (خُدانخواستہ) 1999ء کازمانہ لوٹ آئے۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر