اسلام آباد: ہائی کورٹ نے انٹرنیٹ پر گستاخانہ مواد شیئر کرنے والے بلاگرز کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر وطن واپس لانے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے گستاخانہ مواد سے متعلق درخواست نمٹاتے ہوئے 3 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے فیصلے میں حکومت اور متعلقہ اداروں کو حکم دیا کہ گستاخانہ بلاگز لکھنے والوں کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر وطن واپس لانے کے انتظامات کئے جائیں اور وزارت داخلہ گستاخانہ اور فحش مواد والی این جی اوز کے خلاف کارروائی کرے۔ اس کے علاوہ عدالت نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں ایک ماہ کے دوران ترامیم کی جائیں جس میں گستاخانہ اور فحش مواد کو جرم قرار دیا جائے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ میرٹ پر اور قانون کے مطابق معاملے کی تحقیقات کی جائیں جب کہ پی ٹی اے کو متنازع پیجز کی نشاندہی کے بعد انہیں ہٹانے کا طریقہ کار وضع کرنے کا کہا گیا ہے، ساتھ ہی چیرمین پی ٹی اے کو گستاخانہ اور فحش مواد سے متعلق قانونی سزائیں دینے سے متعلق بریفنگ دینے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ قبل ازیں سماعت کے موقع پر ایف آئی اے حکام کی جانب سے پیش رفت رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔ سماعت کے دوران طارق اسد ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صرف متنازع پیجز کو بلاک کرنا مسئلے کا حل نہیں، جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ بلاگرز بیرون ملک جا چکے تو انہیں کس طرح واپس لایا جائے، عدالت اس سے زیادہ کیا کر سکتی ہے؟ ملزمان کی نشاندہی کر دیں تو خود پکڑ کر لے آتا ہوں۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے مظہر کاکا خیل نے کہا کہ ہم رحمان بھولا کو لا سکتے ہیں تو بلاگرز کو بھی لا سکتے ہیں، ملزم نامزد ہوں توریڈ وارنٹ جاری کروا کے واپس لایا جاسکتا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ توہین رسالت کے قانون سے غلط فائدہ اٹھانے والوں کا دروازہ بھی بند ہونا چاہیئے، تفتیش میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ گستاخانہ مواد سے متعلق درخواست نمٹا رہے ہیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی جاری رہے گی۔