تحریر : سید انور محمود
وزیراعظم نواز شریف نے پیر 28 مارچ کو کو قوم سے ٹیلی ویژن پر خطاب کے دوران اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنے کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘‘کسی کو معصوم افراد کے مذہبی جذبات اکسانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور حکومت کی برداشت کو کمزوری نہ سمجھا جائے’’۔ لیکن ان کی حکومت کی کمزوری تو اس وقت ہی کھل کر سامنے آگئی تھی جب سنی تحریک و دیگر مذہبی جماعتیں لبیک یارسول کانفرنس کے بعد اتوار 27 مارچ کی دوپہر ممتاز قادری کے چہلم کے اختتام پر پنجاب حکومت سے اپنے کئے ہوئے معاہدئے سے منحرف ہوگیں، معاہدئے میں یہ طے ہوا تھا کہ چہلم کی فاتحہ کے بعد یہ پروگرام ختم ہوجائے گا اورلوگ اپنے گھروں کو چلے جاینگے۔
کانفرنس کے دوران تحریک کے رہنماوں نے تحریک کے دس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر حکومتی ذمہ داران سے مذاکرات کرنے چاہے جونہ ہوسکے، لہذا کانفرنس میں شریک مشتعل افراد نے اپنے مطالبات کے حق میں پارلیمنٹ ہائوس کی طرف مارچ شروع کیا ۔ مظاہرین فیض آباد میں کھڑی کی گئیں رکاوٹیں ہٹاکر اسلام آباد میں داخل ہوگئے۔مظاہرین نے اسلام آباد میں میٹرو اسٹیشنوں پر توڑ پھوڑ بھی کی اور چار کنٹینر بردار ٹرکوں اور آگ بھجانے والی ایک گاڑی کو جلادیا تھا۔ بعد میں مظاہرین تمام رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہوگئے۔ مشتعل مظاہرین نے پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے کی بھی کوشش کی اور پارلیمنٹ پر دھرنا دیا، جلاؤ گھیراؤ اور پتھراؤ کے باعث پاک فوج کو ریڈ زون میں آنا پڑا۔ ایک اندازئے کے مطابق کرڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا یا گیا۔
پیر 28 مارچ کو وزیر داخلہ نے ایک اجلاس میں اسلام آباد کی سکیورٹی اور دھرنے کے شرکاء سے نمٹنے کی حکمت عملی پر غور کیا، اسلام آباد کے معروف تجارتی مرکز بلیو ایریا اور پریڈ ایونیو سے متعدد مظاہرین کو گرفتار کر کے مقامی تھانوں میں بند کردیا اوراسی شام وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا۔ خبریں یہ بھی آرہی تھیں کہ اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں میں بھی کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے طبی عملے کو ہائی الرٹ رکھا گیا ہے۔ منگل 29 مارچ کی شب وزیر داخلہ چوہدری نثار نے دھرنے کے شرکاء کو پرامن طور پر منتشر ہونے کے لیے بدھ 30 مارچ بعد دوپہر ایک بجے تک کا وقت دیا تھا۔
تاہم حکومت اور انتظامیہ کے نمائندے مظاہرین کی قیادت سے بات چیت کرتے رہے اور بالآخر ایک غیر تحریری معاہدے کے نتیجے میں یہ دھرنا ختم کر دیا گیا۔ عوام کی جانب سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ پنجاب اور وفاق کی حکومتوں نے یکم مارچ کو ممتاز قادی کی تدفین کے موقع پر تو لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین کو کنٹرول کرلیا تھا لیکن وہ اس کے چہلم کے موقع پر چند ہزار مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے کیوں نہیں روک سکی۔ ہنگامہ آرائی کے دوران مظاہرین نے راولپنڈی اور اسلام آبادمیں میڈیا کے نمائندوں پر بھی تشدد کیا۔ کراچی پریس کلب پر بھی حملہ کیا گیا۔
بدھ کی شام اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ آج شام پانچ بجے تک دھرنے کے شرکاء کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ہو گیا تھا لیکن ڈیڈ لائن کے آخری لمحات میں قابل احترام شخصیات نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ ریڈ زون میں بالعموم اور ڈی چوک میں بالخصوص کسی کو احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مظاہرین کی طرف سے جو مطالبات حکومت کو پیش کیےگئے تھے اُن میں توہین مذہب کے قانون میں کوئی ترمیم نہ کرنا، مظاہرین اور قائدین پر درج کیے گئے مقدمات کی واپسی اور اُن کی رہائی بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی سمیت توہین مذہب کے مقدمے میں عدالتوں سےسزا پانے والے افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت کی طرف سے ان مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی یقین دہانی کے بعد مظاہرین نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ لوگوں میں 295 سی میں ترمیم کی افواہ پھیلائی گئی، حالانکہ 295 سی میں کوئی ترمیم زیر غور نہیں اور توہین رسالت ﷺ قانون میں کوئی بھی ترمیم نہیں ہوگی۔
اگر آپ مظاہرین کے مطالبات پر غور کریں تو ان میں ایک بھی مطالبہ ایسا نہیں ہے کہ جسکو بنیاد بناکر اسلام آباد میں چار روز تک دھرنا دیا گیا اورکرڑوں روپےکی املاک کو تباہ کیا گیا۔ دھرنے کے شرکا سیاسی حکومت سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ سنی تحریک کے سینیئر رہنما ڈاکٹر اشرف آصف جلالی نے کہا تھا کہ فوج کی ضمانت کے بغیر بات نہیں ہو گی۔ عجیب بات یہ ہے کہ اسلام آباد کے ریڈ زون کے ڈی چوک پر دھرنے دینے والے احتجاج تو سیاسی حکومت سے کرتے ہیں لیکن ضمانت انھیں فوج کی چاہیے ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈی چوک میں دھرنے کے نام پر جمع دو سے تین ہزار لوگ کون تھے،کیا یہ پاکستان کی بیس کروڑ کی آبادی کے نمائندےتھےیا یہ وہ لوگ ہیں جنکو انکے نام نہاد رہنما ٹشو پیپر کی طرح استمال کرتے ہیں ، سامنے کی بات ہے چار دن پہلے ان سے کہا گیا کہ اسلام آباد میں دھرنا دو ، دھرنا دئے دیا گیا، چار دن بعد کہا گیا کہ دھرنا ختم یہ اپنے گھروں کو چلے گئے۔
دھرنا دینے والے کسی عام ورکر کو بلاکر پوچھیں کہ دھرنا کیوں دیا اور پھر ختم کیسے ہوگیا تو پتہ چلے گا ان کو کچھ نہیں معلوم۔ تو پھر انہوں نے دھرنا کیوں دیا ؟ تھوڑی سے معلومات جمع کرنے کے بعد حاصل جمع یہ ہوگا کہ یا تو ان کو اسلام کا نام لیکر استمال کیا گیا ہے یا پھر ضرورت مندوں کو تھوڑی بہت اجرت دی گئی ہے۔ اسلام آباد میں ہنگامہ آرائی کرنے والوں تک یقیناً لاہور میں ہونے والی دہشتگردی کی خبرپہنچ گئی ہوگی لیکن ان کے قائدین کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا ۔وہ صرف اور صرف اپنا سیاسی قد کاٹ بنانے میں مصروف تھے۔ ان پورئے چار دن میں سے ایک منٹ بھی سنی تحریک کے کسی رہنما نے لاہور کے ان معصوم 72 افراد کا تذکرہ بھی کرنا گوارہ نہیں کیا جو دہشتگردی کا شکار ہوئے، اور ان 72 افراد میں 29 بچے تھے۔
27 مارچ کو لاہور میں ہونے والی دہشتگردی ملک کی تاریخ کی ایک بڑی دہشتگردی تھی لیکن افسوس وہ سنی رہنما جو کراچی سے بھاگے ہوئے اسلام آباد صرف اس لیے پہنچے تھے کہ کوئی کشت و خون نہ ہو، کوئی بے گناہ نہ مارا جائے، انہوں نے ایک مرتبہ بھی لاہور کے مظلوموں کا ذکر نہیں کیا، شاید اس لیے کہ مرنے والوں میں زیادہ تر مسیحی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔اسلام آباد کا دھرنا ایک فساد تھا، اس ناکام دھرنےکو حکومت جب چاہتی ختم کرسکتی تھی ۔ شاہ اویس نورانی اور حاجی رفیق پردیسی نے اسلام آباد میں جومصالحت کا کردار ادا کیا وہ صرف سنی تحریک کے رہنما وں کی عزت بچانے کےلیے تھا اور کچھ نہیں، افسوس یہ ہے کہ حکومت نے بھی انکا ساتھ دیا۔
تحریر : سید انور محمود