تحریر: مہر بشارت صدیقی
سعودی عرب نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اپنی قیادت میں 34 ملکی اسلامی فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی خبر ایجنسی کے ایس اے کے مطابق اتحاد میں پاکستان بھی ہوگا، تاہم ایران شامل نہیں۔ محمد بن سلمان کا کہنا ہے اسلامی فوجی اتحاد داعش ہی نہیں ہر اس دہشتگرد کا مقابلہ کرے گا جو امت مسلمہ کے مقابل آئے گا۔ پاکستان، ترکی، مصر، قطر، اردن، ملائیشیا، متحدہ عرب امارات، مالی، نائیجریا، بحرین، تیونس، سوڈان، صومالیہ، آیٹوری کاسٹ چاڈ، ٹوگو سینیگال، سیرالیون بینن مراکش، بحرین، لبنان، کویت، فلسطین ملٹری الائنس کا حصہ ہوں گے۔ اتحاد کا آپریشنل مرکز ریاض میں ہوگا جہاں سے فوجی آپریشنز کے سلسلے میں رابطہ رکھا جائے گا اور ہرممکن تعاون فراہم کیا جائے گا۔
دہشت گردوں کا تعلق چاہے کسی بھی فرقے سے ہو لیکن انہیں فساد پھیلانے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔ امت مسلمہ کو تمام دہشتگرد گروپوں کے ناپاک عزائم سے بچانا مسلم قائدین کی ذمہ داری ہے۔ سعودی وزیردفاع محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد داعش ہی نہیں ہر اس دہشتگرد کا مقابلہ کرے گا جو امت مسلمہ کے مقابل آئے گا۔ اس اتحاد کا مقصد عراق، شام، لیبیا، مصر اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو مربوط بنانا ہے۔ اس سلسلے میں عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں سے رابطے رکھے جائینگے اور مکمل تعاون کیا جائے گا۔
اعلان کے مطابق اتحاد کا مقصد تمام دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں کی کارروائیوں سے اسلامی ممالک کو بچانا، فرقہ واریت کے نام پر قتل کرنے، بدعنوانی پھیلانے یا معصوم لوگوں کو قتل کرنے سے روکنا ہے۔ جرمن وزیر دفاع اور سولاونڈرلین نے سعودی عرب کی طرف سے 34 رکنی اسلامی فوجی اتحاد بنانے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اتحاد کے قیام سے داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کیخلاف جاری کارروائیوں میں مدد ملے گی، دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کیلئے امریکہ، ترکی، چین، ایران یورپ سب کو کوششیں کرنی چاہئیں۔ ان ممالک سے اختلافات سے داعش کو فائدہ اور طاقت ملی۔ امریکہ نے دہشت گردی کا مقابلے کرنے کیلئے 34 اسلامی ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد کا خیرمقدم کیا ہے۔
امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے انقرہ میں کہا کہ یہ اتحاد امریکی حکمت عملی کے عین مطابق ہے جس کے تحت شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے مقابلے کیلئے سنی عرب ممالک کے کردار کو وسعت دینا ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب کی زیر قیادت فوجی اتحاد میں شمولیت کی باضابطہ تصدیق کر دی تاہم ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ سعودی عرب سے موصول ہونے والی تفصیلات کے بعد طے کیا جائے گا کہ اس فوجی اتحاد میں پاکستان کا کردار کس نوعیت کا ہو گا اور کس حد تک اتحاد میں شرکت ہو گی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قریبی برادرانہ تعلقات ہیں۔
پاکستان نے پہلے ہی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے انسداد کے لئے اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قرار دادوں پر عملدرآمد کے عزم کا اعادہ کیا تھا اور ان قرار دادوں میں بھی دہشت گردی انتہا پسندی کی سوچ کے خلاف علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں میں حصہ لینے پر زور دیا گیا ہے۔مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین، جیدعلماء کرام اور وکلاء رہنمائوںنے سعودی عرب کی قیادت میں 34 مسلم ممالک کے اتحاد کے قیام اور پاکستان کی اتحاد میں شمولیت کو خوش آئند قرار دیا اور کہا ہے کہ طویل مدت سے ایسے اتحاد کی ضرورت تھی جو مسلم امہ کے مسائل خود حل کرے اور عالم اسلام کو امریکہ کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔
مسلمانوں کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات اور چیلنجز کا حل مسلم ملکوں کے اتحاد میں ہی ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں پوری مسلم امہ متحد ہے۔ مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ کسی قسم کے بیرونی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سعودی عرب کی زیر قیادت اتحاد میں سرگرم کردار ادا کریں اور ملکی و قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دیں۔ جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے آپریشن ضرب عضب میں زبردست کامیابیاں عطا کی ہیں۔ مسلمانوں کے دفاعی مرکز پاکستان کے اس اتحاد میں شامل ہونے سے دیگر مسلم ملکوں کو بھی اپنے خطوں و علاقوں میں دہشت گردی ختم کرنے میں مددملے گی۔ اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کو باہم الجھائے رکھناچاہتی ہیں۔
انہیں دہشت گردی کے خاتمہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ داعش جیسی تنظیمیں ان کی اپنی پیداوار ہیں اور مسلمان ملکوں میں دہشت گردی کرنے والے درحقیقت دشمنان اسلام کے ہاتھوں میں کھیل رہے اور ان کے ہی ایجنڈے پروان چڑھا رہے ہیں۔ان حالات میں اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ مسلمان ملک ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوںتاکہ بیرونی قوتوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر امت مسلمہ کو نقصانات سے دوچار کرنیوالوںکیخلاف مشترکہ طور پر عملی اقدامات اٹھائے جاسکیں۔پاکستان مسلم لیگ (ض) کے سربراہ اعجاز الحق نے کہاکہ اسلامی ممالک کے اتحاد میں پاکستان کی شمولیت خوش آئند ہے۔
اچھی بات ہے کہ سارے مسلمان متحد ہو رہے ہیں۔طویل مدت سے اس اتحاد کی ضرورت تھی کہ عالم اسلام کو امریکہ کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے بلکہ اپنی بنیادپر ہی مسائل حل کئے جائیں۔ سعودی عرب کی قیادت میں34ممالک کا جو اتحاد بنا اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ یہ اتحادصرف34ممالک تک نہیں رہنا چاہئے بلکہ دیگر اسلامی ممالک کو بھی ساتھ ملانا چاہئے۔،سیاسی،دفاعی اور اقتصادی محاذ پر بھی اس اتحاد کو بھر پور فعال کیا جائے۔اسلام کے نام پر جو قوتیں دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہیں ان کا راستہ روکنے کے لئے اسلامی ملکوں کا اتحاد اشد ضروری تھا اور اسی سے ہی دہشت گردی کو روکا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس اتحاد کو مزید وسیع کیا جائے بلکہ تمام امہ میں جہاں مسلمانوں کو مشکل ہو وہاں سب کو اکٹھا ہونا چاہئے۔
جماعةالدعوة سیاسی امور کے سربراہ پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی نے کہاکہ جماعةالدعوة کا شروع دن سے موقف رہا ہے کہ مسلمان ملکوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے مسلم ممالک کو اپنا مشترکہ دفاعی نظام، فوج اور اتحاد بنانا چاہیے تاکہ دشمنان اسلام کی سازشوں کا مل کر مقابلہ اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کی جاسکے۔ اسی طرح فتنہ تکفیر پھیلا کر تخریب کاری و دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کے ذریعہ مسلمان ملکوں میں جو فساد کے بیج بوئے جارہے ہیں ان کی بیخ کنی کی جاسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں سعودی عرب کی زیر قیادت مسلمان ملکوں کے اتحاد کے ان شاء اللہ دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سینئر نائب امیر علامہ زبیر احمد ظہیر نے کہاکہ سعودی عرب کی قیادت میں مسلم ممالک کا اتحاد وقت کی بہت بڑی ضرورت تھی۔جس طرح دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑا جا رہا ہے اس کے سدباب کے لئے اس سے بہتر راستہ کوئی اور نہیں تھاکہ مسلمان ممالک اکٹھے ہو کر دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کی قیادت خود سنبھالیں تا کہ مسلمانوں کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کاتدارک ہو۔اس اتحاد میں پاکستان کی شمولیت مثبت پیشرفت ہے۔اس کے نتائج عمدہ نکلیں گے۔
تحریر: مہر بشارت صدیقی