تحریر: سحرش فاطمہ
فیشن انڈسٹری کا اس وقت کوء ثانی نہیں اور جہاں بات پاکستان کی آتی ہے تو لگتا ہے جیسے سارا فیشن یہیں ہوتا ہو… اس کی اہم وجہ وہی سوچ ہے کہ آذادی نسواں ہونی چاہئے تو بلکل یہ تو عورت کا بنیادی حق ہے کہ وہ آذاد ہو اور رہے لیکن ایک حد تک جس کی اسے اسلام نے اجازت دی ہے … پاکستان معاشی طور پر دیکھا جائے فیشن کا روز مرہ زندگی میں شمولیت بہت زیادہ ہے لیکن فیشن میں مذہبی, تفریحی, اقتصادی اور ثقافتی طرز کا شامل ہونا لازمی ہے …فیشن زیادہ تر ایسے طبقے کو دیکھتا ہے جو جدید تراش خراش کے شوقین ہیں اور پھر اسی اصولوں پر لباس بنائے جاتے ہیں
ہماری نوجوان نسل اس فیشن کی پیروی کرتی نظر آتی ہے … پاکستان سمیت ملک بھر میں فیشن کو خاض فوقیت حاصل ہے جو مسلم ممالک ہیں وہاں اسلامی کلچر کے لحاظ سے فیشن ہے تو کچھ ممالک میں مغربی اور غیر مغربی دونوں ہیں… چیزیں ہمیں تبدیل کرتی ہیں یا ہم انہیں تبدیل کرتے ہیں” اب بات وہی آجاتی ہے کہ تبدیلی تو آرہی ہے وہ ہمارا ظاہری ہے ہم فیشن کے پیچھے خود کو بدل رہے ہیں۔لیکن ہم خود کو تبدیل کس دائرے میں کر رہے ہیں کیا وہ اسلامی تہذیب میں آتا ہے ؟ عورت کے لئے فیشن یقیناً دل لبھانے والی بات ہے کہ نء سے نء چیز اور جدید تراش خراش میں عورت بلا شبہ خوبصورت لگتی ہے لیکن ایسے فیشن میں جس مین عریانی شامل ہو اسے فیشن نہیں بے غرتی کا نام دینا چاہیئے
پاکستان میں لوگوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں:
1… آنکھ بند کر کے فیشن کے رجحانات کی پیروی کرنے والے …
2… وہ جو ضرورت کے تحت پیروی کریں
3… کسی بھی رجحان کی پیروی نہیں کرے …
فیشن کے رجحانات میں سے بیشتر اسلام کے خلاف ہیں… پر اب کچھ ڈیزائنرز نے اپنے اسٹائل کو بدلا ہے اور مسلم فیشن کی طرف رواں ہورہے ہیں اور اس کی ترقی پہ کام کر رہے ہیں… آن لائن آسانی سے دستیاب ہورہے ہیں… جدید فیشن نے اسلامی لباس کے لئے ضرورت کو سمجھ لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب کافی لوگ عبایا ڈیزائننگ میں آرہے ہیں یا عریبک/ اسلامی لباس کی ڈیزائننگ میں…فیشن کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عورت اچھا نہ پہنے یا ایسا پہنے کی وہ اور اس کا جسم عیاں ہو بلکہ فیشن تو نء سے نء اور اچھے سے اچھے ڈیزائن اور خوبصورت ملبوسات کو لانا ہے کہ عورت اس میں چھپی بھی رہے اور فیشن بھی ہو جائے پر عورت تو چھوڑیں مرد حضرات ہی فیشن میں آکر عجیب قسم کے حلیے میں پھرتے ہیں
انہیں دیکھ کر Alien کا ہی شبہ ہوتا ہے … بہر حال قصّہ مختصر اسلامی لباس و فیشن پہ کام کرنا چاہئے اور اس کا رجحان بڑھانا چاہیئے ۔قرآن شریف میں پردہ سے راست متعلق جملہ پانچ آیتیں آئی ہیں۔ جس میں نہ صرف پردے کے واضح احکام نازل ہوئے بلکہ پردہ کرنے کا طریقہ اور اس کی ضرورت کو بھی واضح کردیا گیا کہ پردہ نہ کرنے کے نقصانات اور ایام میں جاہلیت کی مثالوں سے مومن خواتین کو سمجھایا گیا کہ کس طرح پردے کے احکام انکی عزت و ناموس کی حفاظت اور انکے وقار میں اضافہ کا باعث ہے۔
اگر وہ اسلامی فیشن پہ چلنا چاہتی ہیں تو وہ حجاب کو ساتھ رکھیں لیکن آج کل کے فیشن نے سر کے ساتھ ساتھ ازل ڈوپٹے سے ہی جان چھڑوادی ہے لڑکیوں کی ،سورة نور کی آیت نمبر 31 میں خدا ئے بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ “اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائیں اور اپنے سینوں پر اوڑھنی کے آنچل ڈالے رکھیں اور کسی پر اپنا وہ بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں۔
اپنے پاؤں زمین پر اس طرح زور سے نہ ماریں کہ ان کا پوشیدہ زیور (جیسے پازیب) کی جھنکار دوسروں کے کانوں میں پہنچے اور انکا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے ۔(31: 24) ،زمانہ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کسادے باندھا کرتی تھیں۔ جن کی گِرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جاتی تھی۔ سامنے گریباں کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نظر آتا تھا۔لیکن سورة نور کی آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دوپٹہ رائج کیا گیا جس کا مقصد سر، کمر اور سینہ سب اچھی طرح ڈھانک لینا ہے ۔ مسلمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سن کر فوراً ہی جس طرح اس کی تعمیل کی اسکی مثال ملنا مشکل ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں کہ سورة النور نازل ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان احکامات کو سنکر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور بہنوں کو اس کی آیت سنائی۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی کہ جو یہ آیت سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئیں۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر کسی نے چادر اٹھا کر فوراً ڈوپٹہ بنا لیا اور اوڑھ لیا۔دوسرے روز صبح نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد نبوی میں آئیں سب دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھیں۔ مزید کہ حضرت عائشہ رضی فرماتی ہیں کہ عورتوں نے اپنے باریک کپڑے چھوڑ کر موٹے کپڑوں کے دوپٹے بنائے ۔فیشن میں اگر اسلامی لباس کو مدِنظر رکھا جائے تو ڈوپٹہ اور حجاب سے کم از کم ہم عریانیت سے بچے رہیں گے اور ساتھ ساتھ کپڑے اور تراش خراش کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہیں سے بھی کوء حصہ دکھے نہیںلیکن ہم دورِجہالیت میں واپس جارہے ہیں افسوس سمجھنے کے باوجود بھی ناسمجھی والا کام کررہے ہیں۔۔