تحریر : رضوان اللہ پشاوری
دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کا اشارہ کر کے کہتے ہیں یا عمر یہ ہے وہ شخص!سیدنا عمر ان سے پوچھتے ہیں ، کیا کیا ہے اس شخص نے ؟یا امیر المؤمنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے ۔کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے وہ شخص کہتا ہے : ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ۔ کس طرح قتل کیا ہے ؟ سیدنا عمر پوچھتے ہیں۔ یا عمر، انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اسکی سزا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے ، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے ، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر کو مطلب ہی کیا ہے ! کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے ۔ حتی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تاکہ میں انکو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ، میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا۔ سیدنا عمر کہتے ہیں: کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟ مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے ۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے ۔ اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر سے اعتراض کرے ، یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے ۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے ۔محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے ، اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔
کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے ؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اس شخص کو۔نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ، اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے ؟ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے ۔چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔عمر: جانتے ہو اسے ؟
ابوذر: نہیں جانتا اسے ۔ عمر: تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟
ابوذر: میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔
عمر: ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔ امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے ۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ، کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے ، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے ، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے ۔اور پھر تین راتوں کے بعد، عمررضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاة جامعة) کی منادی پھر جاتی ہے ، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں۔مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین، ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں۔
ابوذر: آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے ۔محفل میں ہو کا عالم ہے ، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟یہ سچ ہے کہ ابوذر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمررضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے ۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے ۔مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ، بے ساختہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے ، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے ۔عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا!امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرائ
میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذر، تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی؟ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا، اے عمر، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟ نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المؤمنین، ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے ۔ سیدنا عمر اللہ رضی اللہ عنہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو انکی ڈاڑھی کو تر کر نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔
اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے ۔
اے ابو ذراللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے ۔
اور اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے ۔
اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے ۔
محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمر کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں۔
تحریر : رضوان اللہ پشاوری
0313-5920580
rizwan.peshawarii@gmail.com