تحریر: نسیم الحق زاہدی
والٹیئر کہتا ہے ان بیو قو فو ں کو آزاد کر انا مشکل ہے جو اپنی زنجیروں کی عز ت کر تے ہیں 23 مارچ 1940ء کو جو قرارداد پیش کی گئی تھی وہ یہ تھی کہ اب مسلمان ہند وئوں کے ساتھ ایک جگہ پر اکھٹے نہیں رہ سکتے انتہا پسند ہندو ئوں نے مسلمانوں پر اپنی ثقافت ، مذہب کو نافذ کر نا چا ہا گا ند ھی اور گانگر س کے ہند ئو رہنما ئوں نے اپنے مذموم عز ائم کے تحت اکھنڈ بھار ت ، بندے ماتر م ، سنسکرت زبان کے نفو ذ کے لئے کھلے عام مسلمانوں پر تشدد کی تر غیب دی مسلمان نا صرف مذہب کے لحاظ سے بلکہ ثقافت کے لحاظ سے بھی ایک الگ قوم تھی طے پا یا کہ ایک آزاد اسلامی ریا ست کا قیام بہت ضروری ہے ایک اسلامی ریا ست جہاں پر اسلامی تعلیما ت ، شر یعت محمدی ۖ ، احکام الہٰی کے مطابق ہر فرد کو زند گی گز ار نے کی آزادی حاصل ہو گی یہی قر ار دا د 1941ء میں نہ صر ف مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی بلکہ اس کی بنیاد پر ہی 14اگست 1947ء کو پاکستان معروض و جو د میں آیا پاکستان دنیا کی تاریخ میں وہ واحد ریا ست ہے جومحض 7سال کی مختصر مدت میں قیام پذیر ہوئی قیا دت کا بے لو ث ہو نا اور جذبوں کا کیا عالم تھا۔
برصغیر پا ک و ہند کی تاریخ بتاتی ہے کہ وطن عز یز پاکستان کا حصول مسلمانوں کے لئے بہت ضروری ہو چکا تھا ہندئوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں کہ جنہیں آج سوچ کر یاتو روح کانپ جا تی ہے یا پھر افسانوی کہانی معلو م ہو تی ہے یقین نہیں آتا کہ اس آزاد ی کے لئے ہمارے آبا ئو اجد اد نے کیا کیا قر بانیاں دیں یہ آزاد ی کیسے ملی ؟ میں اس مقد س لہو کی دا ستانیں جس کا نذرانہ دے کر ہم نے یہ وطن عزیز پاکستان حاصل کیا بیان کر نے سے قا صر ہوں آزادی کی خواہش ،مو ت کے خوف حر یت کی فکر پابند سلاسل کے ڈر سے ختم نہیں ہو تی اور نہ تشدد ، ظلم جبر آزاد ی کی تڑپ کو ختم کر تا ہے ایک اُمید اور آزاد ی کا جذبہ ہے جو دم نہیں تو ڑ تا کشمیر ، فلسطین ، بر ما و دیگر غلام ممالک ان کی زند ہ مثالیں ہیںدکھ اور تکلیف سے یہ کہنا پڑ تاہے کہ جس انگر یز ،ہند ئو کی غلامی سے نجات کیلئے ہمارے آبا ئو اجد اد نے آزاد ی کی قیمت چکائی آج ہم انہی کے غلام ہیں بلکہ یہ غلامی کم ہو نے کی بجائے بڑی ہے ہم یہود کے ساتھ ساتھ صلیبی ممالک کے بھی رحم و کر م پر زند گی گزار نے پر مجبو ر ہو چکے ہیں ۔
آج ان کی تہذیب وتمدن، قانون اور مذہبی روایا ت سے چھٹکارا حاصل کر نا ہمارے لئے ممکن ہی نہیں رہا پاکستان کے حصول کا مقصد ایک اسلامی ریا ست کا قیام تھا جمہوری نظام طر ز خلافت بالکل حضرت عمر کے عہد جیسا جن کا بر ملا اعلان قائد اعظم محمد علی جناح نے ان الفاظ میں کیا تھا ”مجھ سے اکثر پو چھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طر ز حکو مت کیا ہو گا؟ پاکستان کے طرز حکو مت کا تعین کر نے والا میں کو ن ہو تا ہوں مسلمانوں کا طر ز حکو مت آج سے 13سو سال پہلے قرآن کر یم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا الحمد اللہ قرآن مجید ہماری راہنمائی کے لئے مو جو دہے اور قیا مت تک مو جود رہے گا ” (آل انڈ یا مسلم سٹوڈنٹس فیڈ ریشن اجلا س 15نومبر 1942ء ) مو جو د ہ حالات اور وطن عز یز پاکستان کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے چند سوالات سر اُٹھا تے ہیں مگر ان پر خامو شی بہتر ہے ورنہ جو ابا ت سے پہلے ہو سکتا ہے کہ اپنا سر ہی قلم نہ ہو جائے قائد اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم دانشور ، محب الوطن اور بے لو ث قیا دت نہ ان کے بعد آئی ہے اور نہ ہی شا ید کبھی آئے گی ان کے یہ تاریخی الفاظ آج کے حکمر انوں کے لئے کا فی نہیں کہ مسلمان کی طر ز حکومت کا تعین کر نے والے یہ کو ن ہو تے ہیں ؟ ۔
آج لبرل پاکستان بنانے کی با تیں کی جاتی ہیں اسلامی اشعار کا مذاق اُڑایا جا تاہے یہو د و نصاریٰ کی نظام حکو مت کو سراہا جا تاہے ”Communism” نظام کی مثالیں دی جاتی ہیں آج ہمارے حکمران حصول پاکستان کے مقصد اور قومی نظریہ کو بھلا کر اپنی ذاتی تر جیحا ت کی وجہ سے ان دشمنوں کو دوست بنا بیٹھیں ہیں کہ جن کے ظلم و بر بر یت سے نجا ت حاصل کر نے کے لئے اس ملک کا قیام عمل میں لایا گیا جس دھر تی کا ذرہ ذرہ ہند ئو ں سکھوں کے ہا تھوں مسلمانوں کے بہنے والے خون سے سرخ ہو ا آج ہمارے ارباب اختیار نظر یہ پاکستان کو فر اموش کر کے اس دھر تی پر ان کا والہانہ استقبا ل کرتے ہیں اور پسندید ہ ملک اور دو ستی کے ہا تھ بڑھا تے ہیں یہ سوال اپنی جگہ فریا د کناں ہے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اور تعبیر کے لئے با نی پاکستان نے دن رات محنت کی اور مسلمانوں نے اپنے بچوں کو سکھوں کی کرپانوں اور تلواروں کی نذ ر کر دیا تھا ۔
پاکستان کلمہ کی بنیا د پر بنا تھا شر یعت محمد ی ۖ کا نفاذ تو دور کی بات آج اسلام کی بات کر نے والوں کو انتہا پسند ، شر پسند سمجھا جا تاہے آج چند نا م نہا د د ربار ی علماء نے اسلام کا اصل چہر ہ ہی بیگاڑ دیا ہے ملت کفر کو خوش کر نے کے لئے ان کے تہواروں کو پور ے مذہبی جو ش و خروش کے ساتھ منا یا جاتا ہے آل انڈ یا مسلم لیگ کونسل 21اکتو بر 1939ء کو خطاب کر تے ہوئے بانی پاکستان نے تاریخی جملے ار شا د فرما ئے تھے ۔
”میری زند گی کی واحد تمنایہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سر بلند دیکھوں میں چا ہتا ہوں جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لیکر مر وں میرا ضمیر اور میر اخد ا گواہی دے رہا ہوکہ جناح نے اسلام سے خیا نت اور غد ار ی نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی ، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کیا ” کیا آج کے حکمرانوں میں سے کوئی ایسے الفاظ ادا کر سکتاہے ؟ 23مارچ ء کا مطلب یہ نہیں کہ چند تقاریر ، بیانات اور پھر سب کچھ ویسا آج اس وطن عز یز اور اسلام کی سلا متی کے لئے 23مارچ 1940ء کے طرح کے جذبوں کی ضرورت آن پڑ ی ہے آج نئی نسل کو ایک بار پھر سے بیدار ہو نا ہو گا ۔
تحریر: نسیم الحق زاہدی