تحریر : شاہ بانو میر
عرب کی زمانہ جاہلیت کی تاریخ پڑہیں توانکا معاشرہ معاشرتی حیود وقیود سے آزاد معاشرہ تھا بلکہ معاشرہ تو انسانوں سے وجود پاتا ہے بھیڑیا نما صفات کے مالک تہذیب سے نا آشنا لوگوں کے ہجوم کو معاشرہ کہنا ہی انسانیت کی توہین تھی جہاں عورت صرف جنس ارزاں تھی خوبصورت عورت کھلم کھلا مردوں سے ملتی داد و تحسین اس کی تعریف میں رطب اللسان ہر مرد مجلس میں سبقت لے جانا چاہتا تھا جو مرد فطری شرافت سے ان کے ہمراہ بیٹھ کر شراب سے احتراز برتتا اور عورت سے محتاط رہتا تو اس کا سر عام مذاق ارا کر اسکو نازیبا الفاظ کہے جاتے کئی کئی عورتوں سے شادیاں عام تھیں اپنے حرم میں کئی کئی عورتیں رکھنا عام بات تھی دو سگی بہنوں کو ایک ہی مرد کا رکھنا قابل اعتراض نہیں سمجھا جاتا تھا باپ کے انتقال کے بعد اپنی ماں سے نکاح عام راوج تھا شراب کا گھروں میں یوں استعمال تھا کہ گھر نہ ہوں شراب خانے ہوں معاشرتی قوانین ان انسان نما جانوروں کو چھو کر نہ گزرے تھے ایسے اندھیرے میں شمع فروزاں روشن ہوتی ہے اور آپ تشریف لاتے ہیں دنیا میں اپنے گرد و نواح میں بسنے والوں سے ان کے وحشیانہ طرز عمل سے معاشرتی انداز سے آپکو شدید اختلاف ہے اور آپ متلاشی ہیں حق کے یہی وجہ ہے کہ اس غلیظ ماحول میں رہتے ہوئے بھی تنہا اور اکیلے غار حرا میں جاتے اور بے مقصد کی رونقوں میں وقت کو ضائع نہ کرتے۔
بلکہ ان لوگوں کی زندگی پر غورو فکر کرتے اور خود کو بچا کر رکھتے پھر 40 سال کی عمر مبارک میں پہلی بار وحی کانزول ہوتا ہے ذرا توجہ سے پڑہیں حضرت آدم کی تخلیق ہوتی ہے اور ان کی فضیلت کا معیار فرشتوں سے بلند کیا رکھا گیا؟ علم فرشتوں کے سامنے جب اللہ سبحان و تعالیٰ حضرت آدم کو پیش کرتے ہیں تو اس سے پہلے انہیں تمام دنیاوی علوم سکھاتے ہیں ہر چیز کا نام اسی لئے جب فرشتے معترض ہوتے ہیں تو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ان چیزوں کے بارے میں بتاؤ فرشتے عاجزی سے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم تو آپکی پاکیزگی بیان کرتے ہیں ہمیں تو وہی علم ہے جو آپ نے ہمیں سکھا رکھا ہے تب آدم ّ کو حکم ہوا کہ آپ بتایئے اور یوں علم کو برتری دلوا کر پہلی کامیابی کی بنیاد سکھائی گئی وحی کا آپﷺ پر نزول ہوتا ہے اقراء پھر سے آدم والی سنت کو دہرایا گیا وہاں علم دے کرپیش کیا گیا یہاں آپﷺ کو وحی اقراء کی دے کر صدیوں پرانے اپنے پہلے عمل کی تصدیق کر دی کہ ہمارے حکماور عمل تبدیل نہیں ہوتے وہی رہتے ہیں کبھی ان میں خلا یا سقم نہیں دیکھ سکتے مزید بتایا گیا کہ القلم ہرچیز کی تخلیق سے پہلے بننے والی چیز ہے اس کی قسم بھی کھائی گئی کیا عظمت ہے۔
قلم اور اس سے حاصل شدہ علم کی سبحان اللہ ابتداء سے انتہاء تک تقاضہ اصرارعلم کا ہو تو سوچیئے کہوہ اللہ پاک جس نے نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ آپﷺ کی صورت رکھ کر عمارت کو مکمل کر دیا علم کی ابتداء سے شروع ہونے والے نبوت کے اس سلسلے کو نبوت کے خاتمے پر بھی اسی پہلے سبق سے شروع کرتے ہیں ؟علم کی ایسی فضیلت ایسا سبق جہاں سے مل رہا ہو وہ کیسا انسان اور کیسا اس کا معاشرہ کیسی قوم کیسی امت کی خواہش رکھتا ہے ہم سے؟ قرآن پاک میں آداب زندگی کا جو وسیع و عریض سلسلہ ہمیں ملتا ہے سبحان اللہ وہ تو شائد آج تک انسان دے ہی نہیں پائےاپنے خالق کو دین اسلام اللہ کا دین ہے اسی لئے سکھائے گئے ہمیں بزریعہ قرآن دنیا میں رہنے کے قوانینزندگیکاروبار رشتے داریاں ہمسائے دشمن دوست اجنبی مسکین فقیر غریب بچوں کمزورعورتوں بوڑھوں جانوروں درختوں حشرات الارض جیتے ہوئے لوگوں کے حقوق العباد اور مرنے والوں کیلئے دعاؤں کے انداز سکھاتا ہے۔
مالک دو جہاں کی عبادت حج روزہ نماز زکوۃ منصف معاشرہ سود دے پرہیز صدقہ خیرات کا خوبصورت نظام غرباء کیلئے سوچنے والی فکر انگیز آیات تعلیم کی اہمیت لین دین پر تحریر کے قوانین انصاف کیلئے منصفی کے شفاف طریقے وگرنہ شدید ذلت آمیز عذاب ملنے کی وعید جنگی معاملات میں انداز سپہ سالاری اور مال غنیمت کی تقسیم صبر شکر والی زندگی نعمتوں کا شکر شعور ذکر کے فضائل خوشی میں کیسے خود کو سنبھال کر حد سے باہر نہیں جانا غم میں کیسے ضبط کو شعار بنا کر اللہ کو راضی کرنا ہےانسان سے مومن اور مومن سے متقی بننے کا کٹھن عمل 23 سال کے اس عظیم تعلیمی کورس کی صورت مکمل ہوتا ہے پھٹے کپڑوں میں افلاس زدہ شاگرد ہیں اور استاد ایسا عملی نمونہ کہ وہ ایک پتھر باندھ کر بھوک کی شکایت کرتے ہیں توآپﷺ پیٹ پر تین پتھر باندھے ہوئے ہیں سبحان اللہ عملی نمونہ قربانی صبر اسقتامت برداشت کاجس میں بار بار صلہ رحمی کا ذکر ہے رب ذوالجلال کی جانب سے اس ضابطہ حیات کو اپنا کر زندگی گزارنے والوں کیلئے اخروی انعامات کا بار بار ذکر ہے اور زندگی میں جب بھی اپنے گناہ بوجھ محسوس ہوں تو توبہ کا خوبصورت خالص عمل بیان کیا گیا اس سے پہلے کہ موت آلے بار بار معافی کا ذکر بار بار بخشنے کا وعدہ مگر تقاضہ صرف ایک شرک نہیں کرنا اور متقی بننے کیلئے دنیا کو عارضی قیامگاہ سمجھنا ہے 23 سال کا یہ عمل تحلیل نفسی ہے۔
نفسیاتی طریقہ علم ایسا پڑھایا سکھایا گیا کہ غرباء کا اسلام کڑا وقت آنے پران غریبوں عاجزوں کو کیسے جنگجو سپہ سالاروں میں تبدیل کرتا ہے؟ بغیر کسی علم کے عمل کے مشقت کے یہ ممکن ہے؟ خانگی امور کی معلومات رشتوں سے نبھاؤ میاں بیوی کے ذاتی معاملات میں بگاڑ کی صورت مختلف اسباق جزا و سزا قیدیوں کے ساتھ سلوک بازار میں لین دین تجارت کے رہنما اصول میت کیلئے معاشرتی اصول اجتماعی سوچ کی سوچ اس قدر باریک بینی سے زندگی کے ہر معاملے کو کھول کر پھر اسی قرآن پاک کے اسباق کو عملی طور پر آپﷺ نے اپنی زندگی میں عمل کر کے ان کو ثابت کیا یہ طریقہ کار کیا ثابت کرتا ہے؟ کیا یہ تمام امور مکمل ضابطہ حیات کی نشاندہی نہیں کرتے؟ پابندی عبادات کے نتیجے میں لوہے کی مانند ارادوں کی مضبوط پڑہی لکھی امتکیا یہ باتیں ان پڑھ امت کی نشاندہی کرتی ہیں؟۔
سال 23تک علم کا وجدان ملتا رہا معاملات کی نشاندہی کر کے ان کو سلجھانے کا طریقہ واضح کیا گیا سال 23 میں ایک نسل باعمل ہو کر میدان عمل میں پیر جما لیتی ہے طویل عرصہ وہ جاہلانہ اطوار پر مشتمل کوئی دہشت گرد کوئی غیر مہذب غیر تہذیب یافتہ معاشرہ چاہتا ؟وحی کا آپﷺ پر نزول ہوتا ہے اقراء پھر سے آدم والی سنت کو دہرایا گیا اور مزید بتایا گیا کہ القلم ہر چیز کی تخلیق سے پہلے بننے والی چیز ہے اس کی قسم بھی کھائی گ کیا عظمت ہے قلم اور اس سے حاصل شدہ علم کی سبحان اللہ ابتداء سے انتہاء تک تقاضہ اصرارعلم کا ہو تو سوچیئے کہ کیسے وہ اللہ پاک جس نے نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ آپﷺ کی صورت رکھ کر عمارت کو مکمل کر دیا وہ جاہلانہ اطوار پر مشتمل کوئی دہشت گرد کوئی غیر مہذب غیر تہذیب یافتہ معاشرہ چاہتا ؟جاری ہے۔
تحریر : شاہ بانو میر