counter easy hit

اسلامی جمہوریہ پاکستان

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

تحریر : صحاب آشو، فیصل آباد
قائداعظم نے جب دیکھا کہ برصغیر میں انگریزوں کے بعد ہندو اپنی اجارہ داری قائم کر لیں گے تو انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ اگر ہندوؤں نے اپنی حکومت قائم کر لی تو مسلمانوں کا کیا حال ہو گا. وہ تو اپنے مذہب پر عمل کرنے کے قابل بھی نہیں رہینگے. “یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ قائد اعظم نے مسلمانوں کے بارے میں سوچا کہ وہ اب چھپ چھپ کر عبادت کرتے ہیں کلمہ توحید پر قائم لالچ و ہوس سے کوسوں دور ہیں۔

ایمانداری، راست بازی اور سچائی انکا اوڑھنا بچھونا ہے. ہندو اقتدار کے بعد وہ اسلامی اقدار پر عمل کیسے کریں گے؟ سنت رسولۖ پر قائم کیسے رہینگے؟؟قائداعظمنے ہندو ازم یا مغربی جمہوریت کو رائج کرنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا. قائد نے اپنے کچھ عظیم ساتھیوں کے ساتھ ملکر سب مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور الگ وطن کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کردی.اپنا آرام تک وطن کے حصول کے لیے تیاگ دیا. وہ بیمار ہونے کے باوجود حصول وطن کی ہر ریلی میں سب سے آگے آگے ہوتے. انھیں انگریزوں اور ہندوؤں نے ہر طرح روکنے کی کوشش کی، لالچ دئیے مگر وہ اپنے موقوف پر ڈٹے رہے۔

بابائے قوم نے سب پر واضح کردیا تھا کہ. “مسلمانوں کے لیے آزاد ریاست چاہیے تاکہ انکو. عبادت کرتے وقت کسی قسم کی دشواری، روک ٹوک نہ ہو “اس لیے انھوں نے پاکستان کے حق میں جو نعرہ بلند کیا “پاکستان کا مطلب کیا؟؟؟ لاالہ اللہ ” تھا. آخر کارانکی سر توڑ کوششوں کے بعد ہم الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے.ہمارے بزرگ بہت سی قربانیوں کے بعد خالی ہاتھ وطن پہنچے جن میں انکی جائیداد اور انکی ماں، بہن کی عصمتیں بھی لوٹ لی گئی تھی. وطن پہنچتے وقت ان سب کی حالت دگرگوں تھی۔

ہر طرف بے بسی اور لاچاری تھی. مگر وہ پھر بھی حوصلہ ہارنے کی بجائے حوصلہ بڑھائے ہوئے تھے اور ہر نئے آنے والے قافلے کی مدد کو بھاگتے. ایسے بہت سے دل دہلا دینے والے واقعات کے بعد بھی انکے حوصلے بلند تھے. اپنے وطن کی ایک عجیب خوشی تھی جو انھیں تھکنے اور گرنے نہیں دیتی تھی. وہ خوش تھے کہ ان کے پاس اپنا الگ وطن ہے جہاں وہ بناء کسی ڈر کے اسلامی تعلیمات پر عمل کرسکتے ہیں.اس لیے جب قوانین بنے تو سب سے پہلا قانون اسلامی اقدار کا فروغ تھا. پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا.لوگوں نے مل جل کر کام کیا. دکھ سکھ میں اکٹھے رہے۔

اپنی مدد آپ کے بل بوتے پر خود دن رات محنت کی اور اس ملک پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے کر بڑھنے لگے.اس خوشحالی اور امن کو دیکھ کر ان سب کے سینوں پر سانپ لوٹ گئے جو سوچ رہے تھے “آخر کار مسلمان جلد یا بدیر بھوک افلاس سے تنگ آکر خود پاکستان جیسے الگ وطن کی حدود ختم کر کے یہاں کا رخ کریں گے. لیکن مسلمانوں نے سب پر اپنی قوت اور نصب العین واضح کردیا تھا.مگر بدقسمتی سے وقت کی تیزی ہمارے ان تمام عظیم لیڈروں کے ساتھ ان بزرگوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئی جو پاکستان کا مطلب جانتے تھے. نہایت افسوس کے ساتھ کہ آج کا پاکستان کل کے پاکستان سے بالکل الگ ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ زمین کا وہ ٹکڑا جسے ہزاروں لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا اسے ماں کا درجہ دیاگیا. اگر “ماں کا پیار بدل نہیں سکتا تو زمین کا یہ عظیم ٹکرا کیسے بدل سکتا ہے؟؟؟آج کی نئی جنریشن بس یہ بات سوچتی کہ ہم نے ہر فیلڈ میں ترقی کی منزلیں طے کی ہیں. وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے بزرگ پرانی اقدار پر قائم تھے.اگے بڑھنے کی دوڑ میں اپنی سب روایات بھول گئے. دولت کے حصول نے اپنوں کو اپنوں سے دور کردیا. آج اس ملک میں دو طبقات موجود ہیں. ایک وہ جو اسلامی اقدار کو آج بھی فوقیت دیتے ہیں. فارن کنٹریز کام کرنے کی بجائے اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں. اپنی تعلیمات کو سب پر مقدم جانتے ہیں ایک وہ جو مسلمان تو ہیں مگر آزاد خیال اور کافی حد تک سیکولر ازم کی شاہراہ پر گامزن ہیں. جو امریکہ سے تعلقات کے مماملے میں برابری کو مدنظر رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے اور چڑھانے کے متمنی ہیں. انکے ذہن و قلب میں مادہ پرستی ضرورت سے زیادہ ہوتی ہیں. پھر یہ امریکہ، روس اور برطانیہ کی چمک دمک میں ضرورت سے زیادہ آجاتا ہے. انکے مطابق اگر انکی مرضی پر چلا جائے تو تعمیر و ترقی کے دریچے کھل جائیں گے. لیکن ان میں اس بات کا قطعی احساس پیدا نہیں ہوتا کہ اس تعمیرو ترقی کی بنیادیں ہمیشہ کھوکھلی ثابت ہوتی ہیں. نئی جنریشن مغربی اقدار کے اپنانے کو باعث فخر سمجھتے ہیں. انھیں مشرقی روایات قائم کرنا سراسر دقیانوسی سوچ لگتی ہے۔

یہ سب اپنی اقدار سے اتنا دور ہوگئے ہیں کہ پاکستان کامطلب تک بھول گئے ہیں.تو دین پر عمل کیسے کریں؟؟؟آج کا پاکستان دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ اسلامی ملک ہے. ہر طرف لوٹ مار، چوری چکاری، رشوت، زنا اور شراب نوشی عام ہوچکی ہے. اج کے پاکستان میں کسی کی جان ومال اور عزت وآبرو محفوظ نہیں. کوئی بھی بیٹی اب خود کو باہر نکلتے محفوظ خیال نہیں کرتی. کیونکہ بہت سے آوارہ درندے بھوکے بھڑیوں کی طرح گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں.اج اپنے ہی اپنوں کی گردن کاٹنے کو تیار رہتے ہیں. ایکدوسرے کے خون کے پیاسے ہیں. یہاں تک دولت کی لالچ میں اپنے ماں باپ، بہن بھائی کی گردن کاٹتے انھیں ڈر نہیں لگتا،خوف نہیں ستاتا. اس قدر خون سفید ہوچکے ہیں. ہمسائے میں کوئی مرجائے تو وہاں بیٹھ کر دعا مغرفت مانگنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں تو دوسری طرف گھنٹوں کلب میں ناچتے گاتے ہیں. انھیں وہ کلچر کہتے ہیں۔

اج تو یہ حال ہے جس کا غم وہی جانے.. … مسجد جسے اللہ کا گھر کہتے ہیں. جسے مسلمانوں نے مل کر آزادانہ اللہ کی عبادت کرنے کے لیے تعمیر کیا تھا وہی پر آج بم دھماکے کیے جارہے ہیں کچھ نام نہاد مسلمان جو غیر تنظیموں کہ شہہ پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو شہید کررہا ہے. کہ اب نمازی مسجد جاتے بھی ڈرتے ہیں.شراب کے اڈے، جوا کھیلنا اور خیانت کرنا عام ہوچکا ہے.ان سب کا زمہ دار کون ہے؟؟؟ شاید یہ احساس کسی میں پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اپنا محاسبہ کرسکے.خود کو ٹھیک کرسکے. جس تعلیمات کی پیروی کرنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے الگ وطن کے حصول کے لیے قربانیاں دیں ان پر عمل کرسکے. شاید اس سب بگاڑکی وجہ ہم سب ہیں۔

ہم نے نااتفاقی کی بناء پر اپنے پیارے ملک کے کیا حالات بنا لیے ہیں.آج ہم خود ہی ان سب ممالک کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں جو سرے سے ہمارے وطن کے قیام کے حامی نہ تھے. کوئی بھی انجان نہیں کہ کونسی طاقتیں پاکستان کا اس دنیا میں قیام پسند نہیں کرتی اور اندر ہی اندر سازشیں رچاکر ہمارے ملک وقوم کو تباہ کرنا چاہتی ہیں. کچھ بیبس لوگ جو غربت سے تنگ یا کسی اور معاشی انصافی میں مبتلا ہوتے ہیں انھیں پیسے کا لالچ دے کر مہرہ بنایا جاتا ہے انھیں شک کی ایسی صلیب پر لٹکا دیا جاتا ہے کہ ان کے سوئے ضمیر کبھی جاگنے کا نام ہی نہیں لیتے. تمام سپر پاورز مل کر پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہیں. بھارت قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کتنی بار بارڈر لائن کراس کرچکا ہے۔

Pakistani Nation

Pakistani Nation

پھر فائرنگ کرنا تو عام معمول کی بات بن چکی ہے.لیکن کسی میں ہمت نہیں کہ ان سے جواب مانگ سکے کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے اسے کسں نے اتنا حق دیا؟؟؟سب سندھی، بلوچی، پٹھان اور پنجابی بن کر اپنا اپنا مفاد سوچ رہے ہیں کوئی پاکستانی بن کر نہیں سوچتا اگر سوچتا تو شاید ملک کے آج یہ حالات نہ ہوتے.کاش یہ سوئی قوم پھر سے جاگ اٹھے ان میں یہ احساس بیدار ہوجائے کہ ہم ان سندھی، بلوچی، پختون اور پنجابی کے فرق سے بلاتر ایک سچے پاکستانی ہیں۔

کاش ہم میں یہ احساس بیدار ہوجائیں کہ ہم جو مغرب کی تقلید کرتے ہیں. ہم نے الگ وطن حاصل کیوں کیا؟؟؟ ہم کون ہیں؟؟؟ پاکستان کا مطلب کیا ہے؟؟؟ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی. ابھی وقت کی لگامیں ہمارے ہاتھ میں ہے. ابھی وقت ہے کہ ہم ایک پرچم تلے سب فرق ختم کرکے اکٹھے ہوں کہ سب کو دکھا سکیں کہ ایک پاکستانی مسلمان کی طاقت کیا ہے. مجھے یقین ہے کہ وقت کی لگامیں ہاتھ سے چھوٹنے سے پہلے ہم سب متحد ہوجائے گے. اپنے نصب العین کو پہچان لے گے. اور ایک اللہ سے ڈرنے والے سچے مسلمان بن جائیں گے.انشاء اللہ. کہ جن کے بارے میں کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔

“اللہ سے ڈرنے والے ڈرتے نہیں اور کسی سے

تحریر : صحاب آشو، فیصل آباد