سلیمان بن عبدالملک بڑا خوبصورت تھا ، وہ ایک وقت میں چار نکاح کرتاتھا ، چار دن کے بعد چاروں کو طلاق دے کر چار اور کرتا تھا پھر ان کو طلاق دے کر چار اور کرتا تھا باندیاں الگ تھیں ، لیکن 35سال کی عمر میں مرگیا ، چالیس سال بھی پورے نہیں کیے دنیا میں کتنی عیاشی کی انہوں نے ، اس کے مقابل عمر بن عبدلعزیز 41سال ان کے بھی پوری نہیں ہوئے ، لیکن اس نے اللہ کو راضی کرنا شروع کردیا ، آپ دیکھے کہ جب سلیمان کو قبر میں رکھنے لگے تو اس کا ہلنے لگا ، تو اس کے بیٹے ایوب نے کہا ، میرا باپ زندہ ہے ، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا ، (ترجمعہ)بیٹا ! تیرا اباپ زندہ نہیں ہے ، عذاب جلدی شروع ہوگیا ہے ، جلدی دفن کرو ۔دوسری جانب فرنگی تہذیب کے سحر سے ہم آج تک نہیں نکل پائے’یہ اعتراف کرلینے میں کوئی حرج نہیں کہ آج کی نسل کاطرز معاشر ت یعنی زندگی گزارنے کاسٹائل’مغرب کی اندھی تقلید کاہی نتیجہ ہے ۔کسی بھی نوجوان سے آپ اسلامی مہینوں کے یاکم ازکم حرمت والے مہینوں کے بارے میں پوچھیں توبتانہیں پائے گا بلکہ اسے تویہ علم بھی نہیں کہ اسلامی سال کاآغاز کس مہینے سے ہوتاہے۔ اس کے برعکس دسمبرکے آغاز سے ہی نیوائیرمنانے کی تقریبات خصوصا نیوائیر نائٹ کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔شراب کا سٹاک کرلیا جاتا ہے ۔بازارحسن کی تتلیاں بک ہوجاتی ہیں۔ہوٹلوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ جیسے ہی رات بارہ بجے یکم جنوری کااعلان ہوتا ہے’ہرطرف طوفانِ بدتمیزی مچ جاتاہے۔ہم چونکہ مغرب سے مرعوب ہیں اورڈیڑھ سوسالہ غلامی کے جراثیم ابھی تک موجودہیں اس لئے آقاؤں کی پیروی میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور اسے اپنی عزت وتوقیرسمجھتے ہیں۔کسی تہذیب کے تہوار کومنانے کامطلب یہ ہوتاہے کہ ہمیں اس تہذیب اوراس کے بانی سے محبت ہے۔غلامی نے ہماری قوم کی ذہنی اورفکری صلاحیتیں اتنی پست کردی ہیں کہ ہم کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ نئے عیسوی سال کے استقبال کا یہ تہوار ان لوگوں کا تہوار ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ خاکے اورکارٹون چھاپ کرآپ ۖکی توہین کاارتکاب کیا۔