تحریر: اقبال زرقاش
اسلام ایک فطری،انسانی اور اخلاقی دین ہے اس کی کوئی بات، کوئی حکم اور ضابطہ خلاف عقل و دانش نہیں ہے۔ دور حاضر صدیوں منہ کے بل گرنے اور ٹھوکریں کھانے کے بعد زندگی کے ہر معاملے میں اسلام ہی کے سائے میں آسودگی، سکون اور معقولیت محسوس کر رہا ہے۔
اسلام سے قبل معاشرے میں عورت کی حیثیت ڈھورڈنگر سے زیادہ نہیں تھی بلکہ عورت کا وجود معاشرے کے لیے وجہ شرم و ننگ سمجھا جاتا تھا نتیجہ یہ کہ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زمین میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ اسلام دین فطرت کے طور پر ابھرا تو اس نے معاشرے کی اس ناانصافی کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ صرف احتجاج ہی نہیں بلکہ مسلمانوں نے اپنے حسن عمل سے خواتین کو وہ مقام اور وہ مرتبہ عطا کیا جس کا تصور نہ ماضی نہ حال اور نہ مستقبل کر سکے گا۔
اسلام نے طبقہء خواتین کو جو عزت و توقیر بخشی اس سے متاثر ہو کر دوسری قوموں نے بھی عورتوں کو کسی حد تک معزز سمجھا۔ جب بحثیت مجموعی مسلمان زوال پذیر ہوئے تو خود مسلم معاشرے میں بھی عورت اس عظیم مقام سے گر گئی جو اسے اسلام نے عطا کیا ہے۔ اسلام نے عورت کا جو متوازن، معتبر اور قابل قدر کردار متعین کیا تھا مسلمانون نے اسے ملعوظ خاطر نہ رکھا۔ انہوں نے گھر کی چاردیواری کو اس لیے تنگ کر دیا کہ وہ اس کے لئے قیدخانہ بن کر رہ گئی۔
پردے کو اس قدر سخت کر دیا کہ سانس لینا بھی دشوار ہو گیا۔ دوسری طرف وہ قومیں جہنوں نے اسلام ہی کی تقلید میں طبقہ نسوا ںکو عزت عطا کی تھی وہ آزادی نسواں میں اس قدر آگے بڑھ گئیں کہ عورت ہر میدان میں مرد کی ہمسربن گئی اور اب یہ ہمسری بے راہ روی کے سانچے میں ڈھل کر فحاشی کی حدوں کو چھو رہی ہے دوسری طرف مغربی معاشرے کے رنگ ڈھنگ کو اکثر مسلمان خاندانوں نے بھی ترقی پسندی کی علامت سمجھ کر اپنا لیا ہے۔ اب معاشرہ دو حصوں میں بٹا ہوا محسوس ہونے لگا ہے۔
ایک وہ جن کے ہاں عورت محبوس و مقید اور مجبور و مقہور ہے اور دوسرا جن کے ہاں عورت آزاد، خودمختیار اور غا لب و کار آفرین ہے اور یوں اسلام کا حقیقی نظریہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا جو فی الواقع متوازن او ر قابل عمل تھا اور ہے۔اسلام نے عورت کو وہ تقدس عطا کیا کہ ماں کے پاوں تلے جنت ہے۔ اور ظاہر ہے کہ عورت کے مقدس رشتے چار ہیں، وہ بیٹی ہے ، ماں ہے،بہن ہے، بیوی ہے اور یہ چاروں رشتے از حد مقدس اور قابل عزت ہیں اور وہ شخص جسے ان رشتوں کی عظمت کا پاس نہیں وہ اخلاقی لحاظ سے ایک قابل نفرین ہستی ہے۔
اسلام نے تعلیم کے حصول کو عورت اور مرد دونوں کے لیے لازم قرار دیا ہے۔ اپنے اپنے دائرہ کار میں الگ الگ، عورت تعلیم بھی حاصل کرے اور اس تعلیم کو دوسروں کی بہتری کا ذریعہ بھی بنائے مگر آج کی تعلیم یافتہ خواتین کھلم کھلا عورت اور مرد کی مساوات کا دعوٰی کرتی ہیں ۔ اسلام نے عورت اور مرد کو جو مساوات عطاکی ہے وہ احترام انسانی کی مساوات ہے۔باہمی سلوک اور راوداری کی مساوات ہے ،عزت وتکریم اور محبت و شفقت کی مساوات ہے۔ یعنی مردو عورت کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جیسا وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے اسے محکوم و مقہور نہ سمجھے بلکہ اس کا قلبی احترام کرے۔ یہ مساوات کلیتہ معاشرتی اور خانگی ہے۔
دفتری، کاروباری اور بازاری نہیں ہے۔ اسلام عورت کو خواتین کی دنیا میں کام کرنے، ملازمت کرنے اور کھیلنے کودنے سے نہیں روکتا مگر وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ مردوں کے ساتھ گھل مل جائے جس سے معاشرتی خرابیاں جنم لیں۔ عورت کو حیا وعصمت کا آبگینہ ہونا چاہیے اسے علم ودانش کے زیور سے کماحقہ آراستہ ہونا چاہیے۔ اسے ایک مضبوط کردار کا مالک ہونا چاہیے۔ اس میں جرات و بہادری کے جوہر بھی ہونے چاہیں۔ تاریخ اسلام میں ایسی روایات بھی ہیں کہ قلعے میں بند خواتین نے قلعے کی طرف بڑھنے والے دشمنوں کوموت کے گھاٹ اتارا۔
اسلامی پردے کا راز یہ ہے کہ مسلمان عورت حسن وجمال کا اشتہار بن کرباہر نہ نکلے کہ اس کی عزت آوارہ نگاہوں کا ہدف بن کررہ جائے بلکہ اشد ضرورت کے وقت مناسب پردے کے انتظام کے ساتھ، حیا اور پاکیزگی کا پیکر بن کر نکلے اور اس میں اس قدر جرت و ہمت بھی ہونی چاہیے کہ وہ قوی سنگینیوں کا مقابلہ کر سکے۔ اس میں اس قدر عزم وحوصلہ اور خود اعتمادی ہونی چاہیے کہ وہ ناسازگار حالات میں اپنی عزت کا تحفظ کر سکے گویا اسلام عورت کا ایک متوازن کردار پیش کرتا ہے۔
تحریر: اقبال زرقاش