تحریر: عتیق الرحمن
چھٹی ساتویں صدی میں پانچ سو سال کے بعد زمین کا رشتہ آسمان سے قائم ہوا تو دین اسلام کی بعثت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ۖ کو تایوم محشر پیغمبر و رسول بناکر بھیجا۔ رب کریم نے ناصرف نبی محترم ۖ کی بعثت فرمائی بلکہ آخری دین متین اور آخری امت کی بھی بعثت فرمائی اور اس طرح انبیا والا فریضہ و ذمہ داری امت محمدیہ کو سونپی گئی کہ یہی وجہ ہے کہ چودہ سوسال بعد بھی دین حق مکمل آب و تاب کے ساتھ محفوظ ہے کیوں کہ حضوراقدس ۖ کے بعد صحابہ کرام ،تابعین و تبع تابعین اور اسلاف نے مسلسل اور گاہے بگا ہے داعیان اسلام جنم لیتے رہے اور انہوں نے اسلام کی دعوت و پیغام کو ناصرف محفوظ کیا بلکہ اس دعوت کو تمام تر آزمائش و آلام کو برداشت کرتے ہوئے دعوت حق کو جمیع انحاء عالم میں پہنچایا۔ان داعیان حق کی داستا ن بہت طویل ہے قرن اول سے چودہویں قرن تک مسلسل اہل حق ظہور پذیر ہوئے جن کا سلسلہ حضرت عمر عبدالعزیز، حضرت امام شافعی،حضرت امام احمدبن حنبل ،امام مالک و امام ابوحنیفہ سے شروع ہوحضرت مجدد الف ثانی و حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی و سید احمد شہید تک یہ سلسلہ محیط ہے۔ سید ابولحسن ندوی نے اپنی کتاب تاریخ دعوت و عزیمت میں ان اکابرین کی زندگیوں کا مفصل احاطہ کیا ہے۔
ان داعیانِ امت میں پندرہویں صدی کے ممتاز بڑے علماء و بذرگ بھی شامل ہیں جن میں حضرت مولانا محمد الیاس دہلوی،حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری و حضرت مولانا احمد لاہوری اور حضرت اشرف علی تھانوی جیسے خداترس کبار علماو درویشوں نے اسلام کی دعوت کوجمیع انسانیت تک منتقل کرنے کے لئے شب و روز مصروف عمل رہے انہی کی محنت و صحبت کا نتیجہ تھا کہ ملت اسلامیہ ہند کو مفکر اسلام سید ابولحسن علی ندوی جیسا داعی اسلام میسر آئے جن کی جدوجہد کا نا صرف لوہا ہندوستان و عجم میں تسلیم کیا گیا بلکہ ان کی سرگرمیوں اور محنت اور اخلاص کے سبب عرب ملکوں خاص و عام ،بادشاہ و رعایا ،علماء و ادباء سبھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
مولانا ابوالحسن وقت کے حکمرانوں سے جرأت و بہادری کے ساتھ کلمہ حق کہہ دیا کرتے تھے جس کے سبب شاہ فیصل و ضیاء الحق جیسے طاقتور حکمرانوں کے جسموں پر رقت طاری ہوگئی ۔اس تاثیر و تاثر کا طوطی اس لئے بولتا تھا کیوں کہ وہ بے نوا و بے خوف اور بلاطمع بات کرتے تھے،یہاں تک کے ان کو متعدد بار انعامات و گفٹ سے نوازا گیا مگر انہوں نے اس میں سے کچھ بھی اپنی ذات پر صرف نہیں کیا بلکہ سب کا سب مدارس و مسلم ملکوں کے مظلوموں کی مدد و نصرت کے لئے ہدیہ کر دیا۔
مفکر اسلام صرف داعی ہی نہیں تھے کہ ان کی کتاب ”انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ”کے چھپنے پر شرق و غرب میں اسلامی تحریکوں کو ایک جلا ملی جس کے ذریعہ امید کی کرن کا احساس پیدا ہوااور اسی کی بدولت ان کے حوصلے جوان ہوگئے۔خاص طور پر عرب ملکوں مصر و شام ،سعودی عرب و کویت اور دیگر اسلامی ملکوں میں اس کتاب کا شاندار استقال کیا گیا۔مولانا ابوالحسن علی ندوی کی عربی نظم و نثر اور ادب پر گرفت کے سبب ان کو رابطہ اد ب اسلامی کاصدر و سربراہ مقرر کیا گیا۔مولاناکی اسلامی علوم و مضامین پر گرفت کے سبب ان کو آکسفرڈ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کا پہلا صدر مقرر کیا گیا۔مولانا کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں اور خدمات کے سبب مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تاحیات صدر رہے۔سید صاحب نے مشرق و مغرب کے تمام ممالک کے دورے کیے اور ان کے سامنے اسلام کا پیغام ببانگ دہل پیش کیا جس کی شاہکار ان کی کتب مشرق وسطی کی ڈائری،مغرب میں صاف صاف باتیں ،امریکہ میں صاف صاف باتیں،مسلمانان ہند سے صاف باتیں ،اخوان المسلمون سے کھلی باتیں،جیسی متعدد کتب اس بات کا آئنہ دار ہیں کہ مولانا کلمہ حق کو ہمہ وقت اور ہر انداز تحریر و تقریر کی شکل میں دعوت حق پہنچائی۔
مفکر اسلام مولونا ابوالحسن علی ندوی ایک عظیم و علمی خاندان کے خانوادہ ہونے کے ساتھ ساتھ مفکر و محدث اور مفسر بھی تھے،وہ ایک طرف مئورخ تھے تو دوسری وہ مصلح امت بھی تھے،مولانا علم و ادب کے میدان کے مایہ ناز شاہ سوار تھے جس کا مشاہدہ ان کی دوسو سے زائد عربی و اردو میں تحریر شدہ کتب کے مطالعہ کیا جاسکتاہے ۔انہوں نے اسلامی دعوت و فکر کو فروغ دینے کے لئے طبقاتی فرقہ بندیوں سے بالاتر ہوکر بات کی اور بلکہ اسلام کے پیغام کو انسانیت تک پہنچانے کاعملی بیڑا بھی اٹھا رکھا تھااور اس کے ساتھ ہی مولانا نے اسلامی ممالک میں اسلام کے نام پر بپاہونے والی تحریکوں اور تنظیموں کا بھی غیرجانبدارانہ طور پر مطالعہ کیا اور ان کی کمی کوتاہی کو واضح الفاظ میں بیان کیا۔مولانا اپنے فریضہ دعوت کو چہاردانگ عالم میں پہنچانے کے لئے عربی زبان کو زبان وبیان کو اختیار کیا تھا اور اس طرح عربوں کو متاثر کیا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی کاجسم و روح عربی ہے مگر ان کی ولادت عجم میں ہوئی۔
مولانا نے پہلی وحی کے پس منظر میں یہ بات پہلی بار کی کہ اسلام کا تعلق و رشتہ اللہ نے علم و معرفت کے ساتھ جوڑ دیا ہے یعنی جہالت و جاہلیت کا گذر بھی اسلام میں قابل قبول نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ رب کریم نے پانچ سوسال بعد جب پہلی وحی نازل کی تو اس میں غیر اللہ کی عبادت ترک کرنے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی یہ امر لازم کیا کہ ایک خدا کی عبادت کی جائے ،اور نہ ہی سرطان کے مرض سے بھی زیادہ مضربیماریوں اور خرابیوں سے اجتناب اور نیک و اچھے کام کرنے کا حکم دیابلکہ بات کا آغاز کیا ہے تو ”توپڑھ ”کے حکم سے کیا ہے ۔اور مولانا کہتے تھے کہ اللہ نے علم حاصل کرنے والوں کو یہ واضح پیغام دیا رب کریم کو وہ علم مطلوب ہے جس میں علم کا تعلق و رشتہ اللہ کے نام کے ساتھ مربوط و منسلک ہو اس میں کوئی شرط نہیں کہ وہ علم دنیوی ہے یا دینی ،وہ علم مادی ہے یا روحانی اول و آخر مطلوب شئی یہ ہے کہ علم کا تعلق اللہ کے نام کے ساتھ جو ڑا ہواہونا چاہیے کیوں کہ یہی علم ہی انسانیت کو فوز و فلاح تک پہنچا سکتا ہے۔
اسی طرح مولانا ہی اول داعی ہیں جنہوں نے غور و فکر و تفکر و تدبر کی بدولت پہلی بار اس نکتہ کو بیان کیا کہ حضرت ربعی ابن عامر نے رستم کے دربار میں دعوت حق پہنچاتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ”اللہ نے ہمیں مبعوث کیا ہے کہ ہم بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کرایک اللہ کی عبادت میں لے آئیں ،ادیان و مذاہب کے جور و ستم سے آزاد کرکے اسلام کے عدل و انصاف کی طرف متوجہ کریں اور دنیا کی تنگ دستیوں سے نجات دلاکر ان کو دنیا کی وسعت میں منتقل کریں۔
یہی وجہ ہے کہ مولانا اسلام کے مضبوط وطاقتور داعی و مفکر تھے کہ جن کو مغرب کی تمام تر علمی طاقت و قوت خیرہ نہ کرسکی بلکہ مولانا مغرب کے سب سے زیادہ سخت ناقد تھے اور ان کی کامیابیوں کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا۔مولانا نے ”اسلامیات مسلمان مصنفین اور مستشرقین ”کتاب تحریر کرکے ان کا محاسبہ کیا اور اسی طرح ”اسلام اور مغربیت کی کشمکش ”کے موضوع پر کتاب بھی لکھی جس میں مسلم ممالکوں میں مغرب کی سازشوں کا جائزہ پیش کیا۔اسی طرح مولانا کی پہلی ضخیم کتاب”انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر”میں زمانہ جاہلیت ،بعثت اسلام ،مسلمانوں کی قیادت دنیا، مسلمانوں کے زوال ،مغرب کا عروج اقتدار ذکر کرنے کے بعد آخر میں مکمل قوت و طاقت کے ساتھ بیان کیا کہ اسلام ہی وہ دین حق ہے جو کائنات کو ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی و سرفرازی سے ہمکنار کرسکتاہے،اور کانئات کی انسانیت کو تاریکیوں اور ظلمتوں سے نجات دلا سکتی ہے۔
سید صاحب جیسا روشن ضمیراور اسلام سے تعلق و رشتہ پر فخر کرنے والا عالم دین آج ملت اسلامیہ کو درکار و مطلوب ہے ۔مولانا ابوالحسن علی ندویکا یوم وفات ٣١ دسمبر ١٩٩٩ء ہے ۔آج ان کے یوم وفات پر ہمیں اس عزم وتجدید عہد کرنے کا دن ہے کہ ہم مولانا ابوالحسن ندوی کی کتب کا مطالعہ کرکے جو قرآن و سنت کے عمیق و گہرے مطالعہ کا خزینہ ہیں انسانیت کی رہنمائی کئے لئے بطور ہتھیار استعمال کریں ۔ ہم پر لابدی ہے کہ اسلام کے ساتھ اپنے تعلق و رشتہ پر فخر کریں اور اس تعلق کا حق تبھی ادا ہوسکتاہے کہ ہم فرقہ بندیوں سے بالاتر ہوکر جمیع انسانیت کی بھلائی کی فکر کریں۔
تحریر: عتیق الرحمن
atiqurrehman001@gmail.com
03135265617