تل ابیب: اسرائیلی کابینہ نے مغربی کنارے پر مزید یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے متنازعہ منصوبے کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے جس کے تحت فلسطینی سر زمین پر یہودیوں کےلیے مزید 2000 مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔
مغربی کنارے پر واقع فلسطینی سر زمین کے یہ علاقے 1967 سے اسرائیل کے قبضے میں ہیں جہاں اب تک یہودیوں کےلیے 126 بستیاں تعمیر کی جاچکی ہیں جبکہ چند ماہ پہلے پیش کیے گئے منصوبے کے تحت اس مقبوضہ علاقے میں یہودیوں کےلیے 5500 مزید مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں یہاں 2000 مکانوں پر مشتمل یہودی بستی تعمیر کی جائے گی۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس متنازعہ منصوبے کی منظوری ڈونلڈ ٹرمپ کے صدرِ امریکا بنتے ہی دے دی تھی جس کی توثیق گزشتہ روز اسرائیلی کابینہ نے بھی کردی ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے اسرائیلی فیصلے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے پی ایل او کی سربراہ حنان اشراوی نے کہا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کی حکومت انتہا پسند اور نسل پرست ہے جس نے سابقہ اسرائیلی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں سے امتیازی سلوک، ان کی نسل کشی اور فلسطینی حقوق کی پامالی کے علاوہ یہودی بستیوں میں توسیع اسرائیلی پالیسی کا حصہ ہیں اور نیتن یاہو کی انتہا پسند حکومت بڑی شدت سے اس پر عمل درآمد میں مصروف ہے۔ اقوامِ متحدہ نے بھی دسمبر 2016 میں مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف ایک مذمتی قرارداد منظور کرتے ہوئے اس عمل کو غیر قانونی قرار دیا تھا کیونکہ یہ سرزمین فلسطینیوں کی ہے اور یہودی بستیوں کا مقصد انہیں اپنی جگہ سے محروم کرنا ہے۔