اسلام آباد(ایس ایم حسنین) اسرائیلی کابینہ نے باقاعدہ طورپر متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات کی منظوری دیدی، اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یایو اور ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید النہیان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں دونوں راہنمائوں نے ایک دوسرے کو دورے کی دعوت دی۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو اور ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید النیہان کے درمیان پیر کو ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی اور خطے کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا ہے دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو دورے کی دعوت بھی دی ہے۔
۔ دوونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب پیر کو ہی اسرائیل کی کابینہ نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے معاہدے کی منظوری دی ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ابوظہبی کے ولی عہد کے ساتھ بات چیت کے دوران شہزادہ محمد بن زاید النیہان نے جلد ملاقات پر اتفاق کیا ہے۔ ابوظہبی کے ولی عہد نے اسرائیلی وزیرِ اعظم سے رابطے کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ نیتن یاہو سے بات چیت کے دوران دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے معاملات پر تبادلۂ خیال ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خطے میں امن کے استحکام، خوش حالی اور ترقی پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔واضح رہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امریکہ کے تعاون سے 15 ستمبر کو معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت دونوں ملکوں نے تعلقات قائم کرتے ہوئے تجارت، سیاحت، ثقافت، معیشت سمیت دیگر شعبوں میں مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
دوسری جانب
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پہلی کمرشل فلائٹ 31 اگست کو تل ابیب سے ابو ظہبی پہنچی تھی جس میں صدر ٹرمپ کے مشیر اور داماد جیرڈ کشنر اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ ابوظہبی پہنچے تھے۔
یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے اقدام پر ایران، ترکی، فلسطین اور کئی اسلامی ممالک نے تنقید کی تھی، تاہم مصر اور اُردن نے امارات کے اقدام کی حمایت کی تھی۔
متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اِن دونوں عرب ملکوں سے قبل مصر اور اردن کے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم تھے۔
اس طرح اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے والے عرب ملکوں کی تعداد دو سے بڑھ کر چار ہو گئی ہے۔