برسلز (پ۔ر) چیئرمین کشمیرکونسل یورپ (ای یو) علی رضاسید نے کہاہے کہ مسئلہ کشمیر انسانیت کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے۔ اس لیے اس مسئلہ پر عالمی برادری کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ خاص طورپر امن کے تحفظ کے لیے اس مسئلے کو فوری طورپرحل کرنابہت ضروری ہوگیاہے۔ان خیالات اظہارانھوں نے ورلڈ مسلم کانگرس کے زیراہتمام جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے 31ویں اجلاس کے دوران ایک سائیڈ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار کے دوران نظامت کے فرائض الطاف حسین وانی کے انجام دیئے۔ سیمینارکے دیگر مقررین میں برسلزپارلیمنٹ کے رکن ڈاکٹرظہورمنظور، ڈاکٹرکارین پارکر، اندرے بارکس، ایمیما عبدالسلام اوردانیلا ڈونگس شامل تھے۔
اس موقع پرکشمیری پروفیسرسید عبدالرحمان گیلانی پربھارت کی طرف سے لگائے جانے والے بغاوت کے الزامات کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بھی پیش کی گئی۔ چیئرمین کشمیرکونسل ای یو علی رضاسید نے اپنے خطاب میں کہاکہ جموں وکشمیرمیں مصائب اور ناانصافی صرف ایک کمیونٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ انسانیت کے لیے ایک مسلمہ خطرہ ہے۔ امن کے حصول کے لیے اس مسئلے پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ انصاف ضرورطاقت پر غالب آئے گا۔ میں کشمیرکی تاریخ بیان نہیں کرناچاہتاہے ۔ صرف اتناکہناچاہتاہوں کہ اس تنازعے کے دوران قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، عورتوں کی عصمت دری ہوچکی ہے، ہرطرف ناانصافی ہی ناانصافی ہے۔
یہ صورتحال صرف کشمیرکے لوگوں تک محدودنہیں بلکہ پاکستان ، بھارت اور پورے جنوبی ایشیاء کی ڈیرھ ارب افراد کی آبادی اس سے متاثر ہورہی ہے۔یہ بدنصیب خطہ گذشتہ سات عشروں سے اس حل طلب مسئلے کی وجہ سے یرغمال بناہواہے۔ اس خطے کی حکومتیں جہاں پہلے ہی غربت، بیماری، ناخواندگی، ناقص طرز حکومت اور بدعنوانی ہے، اپنے ملکوں کے وسیع ذرائع کو اسلحہ بنانے پراستعمال کرنے پر مجبورہیں اور اس اسلحے میں میزائل اور ایٹمی پروگرام تک شامل ہیں۔
مقبوضہ کشمیرمیں بے نام قبروں کا ذکرکرتے ہوئے علی رضاسید نے کہاکہ دس ہزار سے زائد لوگ لاپتہ ہوئے ہیں۔ بھارتی حکومت نے ان قبروں مین دفن افراد کاڈی این اے ٹیسٹ کرانے سے انکار کردیا۔جبکہ بھارتی حکمران یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والا ہرکوئی عسکریت پسندیا کوئی غیرملکی تھا۔اگربھارت اپنے دعوے میں سچاہے تو ڈی این ٹیسٹ کرانے سے ان لوگوں کی شناخت واضح ہوجائے گی۔ کشمیری گذشتہ سات عشروں سے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں مشکلات کاشکارہیں۔وہ بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ آزادزندگی کے حق سے حتی ٰ کہ منصفانہ عدالتی نظام سے محروم ہیں۔ وہ خوف کے سائے میں زندگی بسر کررہے ہیں اور ہرکوئی اس حق سے محروم ہیں جو دنیاکے دیگرلوگوں کو حاصل ہے۔
کشمیریوں کی مشکلات کے بارے میں علی رضاسید نے مزید کہاکہ کشمیریوں کا کوئی بھی سال غم و پریشانی سے خالی نہیں ہوتا۔ کئی سالوں سے ہم مقبوضہ کشمیرمیں بے نام اجتماعی قبروں، بھارتی حکومت کی طرف سے کالے قوانین اور فوجیوں کو استثناء کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ اب تو بھارت کے لوگوں نے یہ کہناشروع کردیاہے کہ جموں وکشمیرپر بھارتی قبضہ غیرقانونی ہے۔حالیہ دنوں نئی دہلی کی جواہرلال نہرویونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔مجھے امید ہے کہ کشمیریوں کی حمایت میں بھارت کے اور لوگ بھی اپنی آواز اٹھائیں گے۔
اب وقت آگیاہے کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کشمیرپر ساٹھ ستر سال قبل منظورہونے والی ان قراردادوں پر عمل درآمد کروائیں جن میں جموں و کشمیرکے لوگوں کا ایک رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق تسلیم کیاگیاہے۔کشمیرپر فروری 1957کی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے علی رضاسیدنے کہاکہ امریکہ ، برطانیہ، آسٹریلیا، کولمبیا اور کیوبا (کاستروسے قبل) نے اس قراردادکو سلامتی کونسل میں پیش کیا۔ اس قرار دادمیں کشمیرمیں رائے شماری پر زور دیا گی اہے اورکہاگیاہے کہ 1954میں مقبوضہ کشمیرکی آئینی اسمبلی کی طرف سے بھارت کے ساتھ ریاست کے الحاق کی کوئی بین الاقوامی حیثیت نہیں۔یہ قراردادکچھ دن بعد دس ۔صفرکے ووٹوں کے حساب سے منظورکی گئی۔
چیئرمین کشمیرکونسل ای یو کاکہناہے کہ اس کے باوجود کشمیرکے لوگ آج بھی اپنے حقوق کے تحفظ اور آزادی کے منتظرہیں جس کااقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ڈیکلریشن میں وعدہ کیاگیاہے۔ان حقوق میں زندگی کاحق، آزادی کا حق، سوچ اورآزادانہ سفرکاحق، سیاسی اور غیرسیاسی دباؤ سے آزادی کا حق اور حق خودارادیت شامل ہیں۔ انھوں نے کہاکہ ہم بھارت اور پاکستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حق خوداردیت کی ضمانت کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کریں لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ عمل درآمدعالمی برادی کی فعال حمایت کے بغیرممکن نہیں۔ اب یہ وقت ہے کہ اقوام متحدہ اپنی قرادادوں پر عمل درآمد کرواکرجموں و کشمیرکے لوگوں کی دیرینہ مشکلات اورمصائب کو دورکرے۔