تحریر: رانا اعجاز حسین
پاک بھارت تعلقات میں بہتری اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل کیا جانا اشد ضروری ہے، کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل وجہ نزاع ہے، اس لئے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا، دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب و بعید میں مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر کے تعلقات کو بہتر کرنے کی جتنی بھی کوششیں ہوئیں وہ ناکام ہو گئیں، اول تو ایسی کوششوں کی گاڑی چل ہی نہ سکی اور چل پڑی تو تھوڑی دور جا کر رک گئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت پر بھی بہت زور دیا جاتا رہا ہے، اور اس وقت بھی کسی نہ کسی انداز میں یہ تجارت ہو رہی ہے، لیکن تعلقات کی کشیدگی کا براہ راست منفی اثر فوری طور پر تجارت پر ہی پڑتا ہے، اچھی بھلی تجارت ہو رہی ہوتی ہے اور سیاسی سطح پر کوئی واقعہ تجارت کا پہیہ جام کر دیتا ہے۔ امریکہ نے کئی بار مقبوضہ کشمیر میںبھارتی جارحیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہوگا، امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جاری تنازعہ کشمیر علاقائی اور عالمی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث ہے۔
یواین سیکرٹری جنرل بانکی مون بھی اسی تنازعہ پر تشویش کا اظہار کرکے اسکے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کرچکے ہیں۔ اسی طرح برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی کشمیر ایشو پر ہی دونوں ممالک کے مابین جاری سرحدی کشیدگی پر تشویش ظاہر کرچکے ہیں اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ بھی اپنی قرارداد کے ذریعے پاکستان اور بھارت پر مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دے چکی ہے۔ اب ایک بار پھر پاک بھارت مذاکرات فضاء ساز گار ہوئی ہے ، کیا اس موقع پر عالمی رہنماؤں کو تنازعہ کشمیر کرنے کے لئے بھارت پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے، کہ بھارت مسقبل قریب میں ہونے والے مذاکرات کو بامقصد بنائے۔
اگر بھارت نے اپنی دیرینہ ڈھٹائی کو برقرار رکھتے ہوئے کشمیر پر بزور اپنا تسلط جمانے کی بدنیتی کے کھلم کھلا اظہار کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تو اسکے یہ عزائم علاقائی اور عالمی سلامتی کیلئے خطرات بڑھانے والے ہی ہیں۔ اگر ان عزائم کو بھانپ کر بھی امریکہ اور علاقائی و عالمی سلامتی کو لاحق خطرہ محسوس کرنیوالے دیگر ممالک بھارت ہی کیساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدے اور جدید ایٹمی اسلحہ کی فراہمی میں اسکی سرپرستی کررہے ہیں تو اسکے جنگی جنون میں اضافہ کرکے وہ اسکے ہاتھوں امن و سلامتی کیلئے خطرات خود ہی بڑھا رہے ہیں۔
بلاشبہ مسئلہ کشمیر ہی پاکستان بھارت کشیدگی کی بنیادی جڑ ہے ، اس کے باوجود جب بھی پاک بھارت مذاکرات کا آغاز ہوا بھارت نے پیشگی شرائط عائد کرکے دوطرفہ مذاکرات کی راہیں مسدود کی ہیں۔ صرف یہی نہیں’ بھارت تو پاکستان پر جارحیت مسلط کرنے کی منصوبہ بندی بھی کئے بیٹھا ہے جس کا وہ جنگی جنون اور اپنی حربی برتری کے زعم میں کھلم کھلا اظہار بھی کرچکاہے اور اسی مقصد کے تحت بھارت کی مودی سرکار نے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کے ذریعے قائم کی گئی کشیدگی میں کمی نہیں آنے دی۔ یہی بھارت کی حکمت عملی ہے کہ کسی بھی محاذ پر پاکستان کو چین سے نہ بیٹھنے دیا جائے چنانچہ مودی سرکار پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور ساتھ ہی ساتھ اپنی جنگی جنونی تیاریوں میں بھی مصروف ہے جبکہ وہ اپنے تربیت یافتہ دہشتگردوں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشتگردی کو پھیلانے کی سازشوں میں بھی مصروف عمل ہے
ان سازشوں کو خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پروان چڑھا رہے ہیں جن کا ماضی کا ریکارڈ بھی انکی پاکستان دشمنی کی گواہی دے رہا ہے اور پاکستان توڑنے کی مکتی باہنی کی تحریک میں خود حصہ لینے کا اعتراف کرکے بھی مودی اپنی پاکستان دشمن سوچ اور آئندہ کے عزائم آشکار کرچکے ہیں۔ امن کی داعی عالمی قیادتوں سے یہ بھارتی عزائم ڈھکے چھپے نہیں رہے جبکہ مودی سرکار کو پاکستان اور مسلم دشمنی پر مبنی اپنے ایجنڈے پر بھارت کے اندر بھی سخت مزاحمت کا سامنا ہے جس کے ان عزائم کو بھارت کے دانشوروں’ کھلاڑیوں’ فنکاروں اور سابق فوجیوں نے بھی احتجاجاً اپنے سرکاری میڈل واپس کرے عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کردیا ہے
اس لئے امریکہ اور دوسری عالمی قیادتیں اس بھارتی جنونیت سے آگاہ ہونے کے باوجود بھارت کیساتھ جنگی’ دفاعی تعاون اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے معاہدے کر رہی ہیں تو اس سے بڑی منافقت اور دہرا معیار اور کیا ہو سکتا ہے۔ انہیں تو بھارت کی مودی سرکار کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی سلامتی کو لاحق خطرات بھانپ کر بھارت کے جنونی ہاتھ روکنے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے چہ جائیکہ اسے ہر قسم کے جدید اور روایتی اسلحہ سے لیس کرکے اسکی جنگی جنونیت بڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔
اگر عالمی قیادتوں کو فی الواقع علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق خطرات پر تشویش ہے تو وہ بھارتی جنونی ہاتھ روک کر اور یواین قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کراکے ہی ان خطرات کو ٹال سکتے ہیں۔ یہ عجیب صورتحال ہے کہ امریکہ کو پاکستان اور بھارت کے مابین جاری دیرینہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے علاقائی اور عالمی امن کو لاحق ہونیوالے خطرات پر بھی تشویش ہے جبکہ دوسری طرف وہ بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دے کر اسکے ساتھ سول ایٹمی تعاون کے معاہدے بھی کررہا ہے اور اسکے ساتھ جدید ترین اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی اور تیاری کے معاہدوں میں بھی خود کو باندھ رہا ہے۔ بھارت کیساتھ امریکی سول نیوکلیئر تعاون کا معاہدہ امتیازی پالیسی کا غماز ہے جبکہ بھارت نے حالیہ دنوں میں ہی برطانیہ اور آسٹریلیا کیساتھ بھی ایٹمی تعاون کے معاہدے کئے ہیں۔
یہ صورتحال تو بھارت کو مزید بدمست بنا کر اسکے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کی تباہی کی نوبت لانے کی غمازی کررہی ہے ۔ عالمی برادری کوچاہیے کہ جنوبی ایشیاء میں ایٹمی امتیازی پالیسیاں رواء نہ رکھی جائیں کیونکہ ان پالیسیوں کی بدولت خطہ کے سٹرٹیجک استحکام پر مضر اثرات مرتب ہونگے۔
دونوں ملکوں کے مابین تعلقات معمول پر لانے اور بر صغیر میں امن واستحکام کے قیام کی خاطر مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جانا از حد ضروری ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے پرامن طور پر حل کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالے، اور بھارت کو مسئلہ کشمیر پر پاکستان سے مذاکرات بامقصد بنانے کا پابند کرے، کیونکہ مسئلہ کشمیر کا حل ہی وسط ایشیائی ممالک میں پائیدار امن واتفاق کا ضامن ہے۔
تحریر: رانا اعجاز حسین
ra03009230033@gmail.com
رابطہ نمبر:0300-9230033