تحریر : عاصم ڈھلوں ایڈووکیٹ
16 دسمبر 1971 ملکی تاریخ میں ایک ایسا دن ہے جسے ہم آج تک نہ بھول سکے اور یہ 16 دسمبر 2014 گزرنے والا سال اس ملک کی در و دیوار کو لہو لہان کرکے گزر گیا سال نو عزم کا سال قرار دیا جا چکا ہے کہ ہم ہر صورت ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرکے دم لیں گے 1971میں جب یہ ملک دولخت ہوا تب بھی ملک کے اندر سول ملٹری حکومت کسی نہ کسی طرح ایک میز پر موجودتھے اور یہ پلاننگ کر رہے تھے کہ پاکستان کو ٹوٹنے نہیں دیا جائے گا لیکن جو کچھ ہو اوہ تاریخ کے اووراق میں ایک سیاہ باب کے طور پر موجود ہے 16 دسمبر 2014 گزرے ابھی کچھ ہی دن ہوئے ہیں حالات اسی طرح ہیں لیکن حالات کو بھانپنے والے نئے تقاضوں کا سوال کر رہے ہیں ملک کے اندر خون کی ایسی ندی بہائی گئی کہ ملک پاکستان نے پہلی بار پھولوں کے جنازے دیکھے اور پڑھے حقیقت تلخ ضرور ہے
لیکن ملک کی عکسری وسیاسی قیادت ملکی حالات میں اب ایک ہوچکے ہیں اور ملکی معاملات کی گھتی سلجھا کر ملک کو امن اور بیرونی انویسٹمنٹ والا خطہ بنانا چاہتے ہیںملکی معاملات کے اندر تمام حالات اپنے حل کے لیے کئی تقاضوں کا سوال کرتے ہیں اور دہشت گردی کا مسئلہ جتنا گھمبیر اور پیچیدہ ہے اس کے لیے تمام نئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ ہمیں ان تمام مسائل کو بھی سوچنا ہے جن کی وجہ سے یہ تمام مسائل پیدا ہوئے اور اس مسئلہ کا حل بھی جدید قسم کے حالات سے نبردآزما ہونے کے ساتھ ایسے جدیداسلوب کا طلبگار ہے
جو نہ صرف تمام عسکری و سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ عوام کے تعاون کا بھی طلبگار ہے 14 اگست 1947 سے لیکر آج تک ملک کے اندر مختلف قسم کے معاملات کو حل کرنے کے لیے قانون سازی ہوتی رہی اور آج 22ترمیم کے زریعے آئین کے آرٹیکل 175میں ترمیم کی جارہی ہے اور اس کے ذریعے فوجی عدالتوں کا وجود آئینی بنایا جارہاہے اور آج افواج پاکستان کے 1952 ایکٹ میں بھی تبدیلی کی جارہی ہے نئی قانون سازی کے ذریعے مندرجہ ذیل نقات کی منظوری کے لیے پیش کیا گیاہے جو مجلس شوریٰ یعنی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینٹ میں پیش کیا گیا اور منظوری کے بعد دو سال کے لیے پورے ملک میں فوجی عدالتیں آئینی طور پر قائم ہو رہی ہے اور اس فوجی ایکٹ کے مسودہ میں لکھا گیا ہے کہ دوسال بعد خود بہ خود یہ عدالتیں ختم ہو جائیں گی اور ان عدالتوں میں چلنے والے کیسز کی منظوری وفاقی حکومت دیا کرئے گی مسودے کا متن یہ ہے
1 پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والوں کو آرمی ایکٹ کے تحت سخت سزا دی جائے گی 2مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے والوں کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا ہو گی 3افواج پاکستان اور قانون نافز کرنے والے اداروں کے خلاف حملہ کرنے والوں کو بھی آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جائے گی4سول و فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو بھی آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جائے گی 5دھمالہ خیز مواد رکھنے یا دوسری جگہ لے جانے والے کخلاف بھی آرمی ایکٹ کے تحت سز ا ہو گی.6غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی مالی معانت کرنے والوں کو بھی آرمی ایکٹ کے تحت سز ملے گی ،یہ ایک اہم حقیقت ہے کہ تمام قسم کے جرائم ملک کے اندر پہلے بھی دہشت گردی کے قانون کے تحت آتے ہیں
اسی کے مطابق سزائے دی جاتی تھیں یہ امر معنی نہیں کہ موجودہ قانون اور اسلامی قوانین کے تحت کسی بھی مجرم کو مجرم ثابت کرنے کے لیے شہادت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے فوجی عدالتوں کے اندر اس معاملہ کو سپیشل ٹرائل کے ذریعے حل کیا جائے گاقوانین ہمیشہ قوموں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور قاضی الوقت بھی وہی لگایا جاتا ہے جو انصاف کے تقاضوں کو اپنی عملی اور عقلی بصیرت کو برائے کار لا تے ہوئے بہترین فیصلہ کر سکے لیکن ہمارے ہاں صورتحال اس کے بر عکس بھی ہے اور معنی خیز بھی اگر فوجی عدالتیں ہی دہشتگردی کو ختم کر سکتی ہیں تو اس کو اسمبلی سے پاس کروانے کے لیے اتنے دن کیوں لگا دیے گئے اور موجودہ جمہوری اور عدالتی نظام کو کیوں بہتر بنانے پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی ایک بڑا مسئلہ جیہ بھی ہے
جب ادارے مضبوط ہوتے ہیںتو ہم انہیں نظریہ ضرورت کے تحت خود کمزور کرتے ہیںجناب وزیراعظم آپ بھول رہیں ہے آپ اس منصب پر پہلے بھی دو دفعہ رہ چکے ہے یہ موجودہ جمہوریت مظبوط جوڈیشیل سسٹم کی وجہ سے ہے اگر فوجی عدالتوں کی وجہ سے دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے تو پھر آپ اتنے دن لگانے کی بجائے فوری قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس بلا کراس قانون کوپاس کروا لیتے اب بھی جماعت اسلامی اور جمیعت علماء اسلام کے بغیر ہی آپ نے قانون پاس کروالیا ہے لیکن ایک بات یہ کہ پاکستان میں جمہوریت سے زیادہ وقت آمریت کو ملا ہے اس ملک میں 1958 سے 1971 اور پھر 1977 سے 1988 اور اس کے بعد 1999 لیکر 2008 تک آمریت رہی اورفوجی عدالتوں کے ماضی کے تلخ فیصلہ جس میں پانچ صحافیوں کو گرفتار کیا گیا
جن میں ڈاکٹر اعجاز قریشی، مجیب الرحمان شامی ،حسین تقی، مظفر قادر اور الطاف حسین قریشی کیخلاف مقدمہ چلایا گیا اور انکو دو سال کی سزا سنائی گئی اور جو اس وقت فوجی قاضی الوقت تھے وہ انکا موقف سمجھنے اور پڑھنے سے قاصر تھے اور اسی فوجی عدالت نے بیسوی صدی کے عظیم رائیٹر سید ابواعلی مودودی کو بھی سزائے موت سنائی یہ سب کچھ انصاف کے اصولوں کے ساتھ انتہائی مذاق اور اسکا قتل عام تھا ،وزیراعظم پاکستان ان تمام حالات کے پیش نظر فوجی عدالتیں قائم کریں لیکن ان فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا اختیار دیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا جہاں تک سزائے موت کا تعلق ہے
اس پر بھی پابندی مرکزی حکومت ہی طرف سے عائد کردہ ہے یہ مسائل قانون سازی سے حل طلب نہیں ہیں بلکہ قانون پر عمل سے حل ہونے والے مسائل ہے اور اگر اس وقت 1997میں بنے والے دہشت گردی کے خلاف قانون پر مکمل عمل ہوتا توآج حالات مختلف ہوتے قانون سازی اور اسکا استعمال کرنے والوں کو بھی اسے ٹھیک طرح سے استعمال کرنا چاہییاب سینٹ اور قومی اسمبلی دونوں سے یہ قانون پاس ہو چکا ہے اب اس پر عمل درآمد شروعہو جائے گا بہتر تھا کہ قانون پاس ہونے سے قبل حکومت جمیعت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کو اعتماد میں لیکر متفقہ طور پر قانون پاس کرواتی لیکن اب بھی ان جماعتون کو اعتماد میں لینا حکومت وقت کا کام ہے اگر ہر اس قانون کی طرح ہر بنے والے قانون پر مکمل اور شفاف عمل درآمد ہوتا رہے تو دہشت گردی ،کرپشن ،وغیرہ کم ہو کر رہ جائیں اور پاکستانی قوم پر امن و پرسکون زندگی گزار ے
تحریر : عاصم ڈھلوں ایڈووکیٹ
فون نمبر03424452234