ترکی : ترکی میں اردو تدریس کی ایک صدی مکمل ہونے پر استنبول یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات کے زیر اہتمام 12 سے 14 اکتوبر تک سہ روزہ عالمی اردو سمپوزیم بعنوان” ترکی میں تعلیم و تدریس کا سو سالہ سفر” کا اہتمام کیا گیا۔ اس کانفرنس میں خاص طور سے ترکی اور برصغیر پاک و ہند کے باہم مراسم و تعلقات کے حوالے سے مقالہ جات پیش کئے گئے اور دنیا بھر میں اردو زبان و ادب کے فروغ اور ترویج کے موضوع پر بات کی گئی۔
اس سمپوزیم کا اہتمام استنبول یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ اور دنیا بھر کے اردو دانوں میں ہر دلعزیز شخصیت پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقارکی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہو سکا تھا۔ اس طرح دنیا بھر کے اردو دانوں کو ایک جگہ پر اکٹھے ہو کر بات چیت کرنے، مختلف ملکوں میں اردو زبان کے حوالے سے ہونے والے کام کو جاننے اور روابط استوار کرنے کا موقع بھی حاصل ہوا۔
پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار گزشتہ چھ ماہ سے اس سمپوزیم کے انعقاد کے لئے سرگرم تھے اور انہوں نے اس کانفرنس کو بامقصد اور مفید بنانے کے لئے دنیا کے سترہ ممالک سے اردو ماہرین کو استنبول آنے کی دعوت دی تھی۔ اس طرح یہ کانفرنس حقیقی معنوں میں عالمگیر حیثیت اختیار کر گئی۔کانفرنس کے شرکا اگرچہ ترکی میں موجود تھے اور وہاں کی بول چال اور لکھنے پڑھنے کی زبان فطری طور سے ترک ہے لیکن اس موقع پر چونکہ سب لوگ اردو جاننے والے تھے اس لئے استنبول یونیورسٹی کے کانگریس ہال اور اس سے منسلک لابی پر تین روز تک اردو کا بول بالا رہا۔ سب اسی زبان میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے اور تمام سیشن بھی اردو زبان میں ہی منعقد ہوئے تھے۔
استنبول یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات اردو کے سربراہ ایک خوش جمال و خوش خیال ، کثیر اللسانی پس منظر کے حامل ترک پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کا تاریخی ادبی کارنامہ ترکی میں اردو کے صد سالہ جشن کی تیاریوں کی خبریں گزشتہ نصف برس سے دنیا بھر کے اردو دانوں کی توجہ کا موضوع بنی ہوئی تھیں۔اگرچہ یہ بات بجا ہے کہ ایسے کسی بھی تاریخی کام کا سہرہ کسی فردِ واحد کے سر نہیں ہوتا۔اس کے لیے ایک منظم انداز میں جماعت کی صورت میں تگ و دو کی جاتی ہے اور ہمیشہ ہر کامیاب کانفرنس کے انعقاد میں کچھ بے ریا اور بے نام سپاہی بھی موجود ہوتے ہیں جو پس منظر میں رہ کر پیش منظر کو اجاگر کرتے ہیں۔ لیکن ایک با صلاحیت سالار اور میرِ کارواں کسی بھی قافلے کہ درست جہت میں چلانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
وہ رہنما بھی ہوتا ہے اور خادم بھی، ستارہ شناس بھی ہوتا ہے اور طویل راستوں ے پیچ و خم سے آگاہ بھی۔ وہ قافلے میں شامل جانثاروں کے جذبے سے بھی آگاہی رکھتا ہے اور شب خون مارنے والے کے ارادوں سے بھرپور انداز میں واقفیت بھی اسے پانی بھرنے والے مشکیزوں کی گنجائش کا علم بھی ہوتا ہے اور راہرو کی ضروریات کا احساس بھی ، وہ قافلے کے پیچھے چلنے والے سگانِ کوئے لعنت کی ہاؤ ہو سے بے نیاز بھی ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے برِ اعظموں کے طویل فاصلوں کو پاٹ کر صرف ایک لسانی پرچم تلے جمع کر دینا قائدانہ صلاحیتوں کے مالک اور خادمین کے انکسار کے حامل پروفیسرڈاکٹر خلیل طوقار کا وہ تاریخی کارنامہ ہے جس پر ان کے نام کو ہمیشہ سنہری حروف میں تحریر کیا جائے۔ اہلِ صدق و صفا کی نظر میں جو اس سہ روزہ جشن کا نہ صرف حصہ بنے رہے بلکہ بنظرِ غائر اس کا مشاہدہ بھی کرتے رہے ان کی نظر میں اردو زبان کے اس عاشق کی صلاحیتیں آشکار ہوتی رہیں۔ اس کانفرنس کے بعد ان کا مقام جس اوج پر پہنچا گزرتا وقت ہی اس سے آگاہ کرے گا۔
نام و نمود، طمع و حرص اور غاصبانہ قبضے کے اس دور میں جب ہم جیسے منتظمین جو یورپی لٹریری سرکل کے تحت امدادِ باہمی کے تحت بین الاقوامی پروگرام کروانے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ عالمی پروگرام ترتیب دینا ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں۔ ڈکٹر پروفیسر خلیل طوقار نے جس استقلال اور جانفشانی سے اس بارِ گران کو اٹھایا اور اپنی خوبرو پیشانی پر ایک شکن ڈالے بغیر آدابِ میزبانی نبھائے وہ فقید المثال ہے۔خلیل طوقار نے عصرِ حاضر کے سوشل میڈیا کے ذریعے کانفرنس کے بارے میں رواں تبصرہ اور معلومات کی ترسیل کی۔انھوں نے باقاعدہ مدعو کیے جانے والے مندوبین کے ویزے، آمد اور رہائش کے بارے میں جدید ترین طریقے کے مطابق آن لائن نوٹس لگائے۔ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے شامل ہونے والے احباب کو بھی خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا اور ترک میزبانی کا فراخدلانہ مظاہرہ کیا۔
ایک مستقل مزاج محقق ہونے کے ناطےپروفیسرڈاکٹر خلیل طوقار نے دریافت کیا کہ ترکی میں اردو تدریس کی ابتدا عام اندازے کے مطابق ساٹھ کی دہائی میں نہیں تھی بلکہ اس دلکش اور میٹھی زبان اردو نے 1915ء میں عبد الجبار خیری کی ترکی میں آمد کے ساتھ ہی اپنے وجود کے سدا بہار درخت کی پہلی کونپل کو سینچنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے مقالے میں اس تحقیق کے حوالے سے مستند شواہد پیش کیے گئے ہیں۔
اس خوش آئند تحقیق کے بعدپروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نے انتہائی ذوق و شوق سے دنیا کے تمام خطوں سے اردو زبان کی ترقی و ترویج کے لیے کوشاں یونیورسٹیوں کے اردو کے شعبوں سے رابطے کیے۔ ان تمام اردو دانوں کو بطور خاص دعوت دی جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی لیکن جن کے ذوق و شوق نے انھیں اردو زبان کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر کر رکھا تھا۔ روسی اردو دان ڈاکٹر لڈ میلا ویسلوا، جرمن ڈاکٹر ہائنز ورنر، بنگلہ دیش سے ڈاکٹر محمود الاسلام اور تہران یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی بھرپور نمائندگی جن میں ڈاکٹر علی بیات، ڈاکٹر کیومرثی، ڈاکٹر وفا اور ڈاکٹر فرزانہ عزم لطفی شامل تھیں۔
ترکی کے سب سے بڑے اورخوبصورت تاریخی شہر استنبول کی جامعہ استنبول میں اردو زبان گذشتہ ایک صدی سے پڑھائی جا رہی ہے۔ اس جامعہ میں اردو زبان کی درس و تدریس کا شعبہ ترک نژاد پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کی سربراہی میں بہت کامیابی کیساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے۔ جامعہ کے سربراہ جناب پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار دنیائے اردو ادب میں ہر دل عزیز شخصیت ہیں۔ آپ کا تعلق پاکستان کیساتھ بہت دیرینہ اور گہرا ہے ۔ آپ پاکستان کے داماد بھی ہیں۔آپ نرم خو، خوش گفتار، خوش شکل اور خوش لباس ہونے کیساتھ ساتھ اپنے کام کے ساتھ بے حد مخلص ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ آپ دنیائے اردو میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔
جامعہ کے شعبہ ادبیات نے رواں ماہ ، یعنی اکتوبرکی 12سے 14 تاریخ کو اپنی صد سالہ تقریبات کا اہتمام کیا اور ایک تین روزہ اردو سمپوزیم کا انعقاد کیا۔ اس سمپوزیم میں ترکی اور وسطی ایشاء میں مسلمانوں کے کردار اور بر صغیر پاک و ہند میں اردو زبان کے ترکی زبان کیساتھ رشتوں کے حوالے میں مقالہ جات پیش کئے گئے۔ دنیا بھر سے اردو زبان کے دانشوروں، صحافیوں، ادیب، شعراء، مترجمین اور جامعات کے اساتذہ کرام نے اس سہ روزہ سمپوزیم میں شرکت کی اور اپنے مقالہ جات پیش کئے ۔سمپوزیم کے دوران اردو زبان میں ایم اے کرنے والے ترک طلباء و طالبات نے میزبانی کا حق ادا کر دیا۔ ترکی میں انگریزی زبان تقریباََ نہیں بولی جاتی۔
باہر سے آئے ہوئے مندوبین کو رابطے کے لئے کوئی دشواری نہیں ہوئی کیونکہ تمام ترک میزبان طلباء بہت روانی کیساتھ اردو بول رہے تھے۔ تمام مندوبین کو جامعہ کے نزدیک ایک پر سکون ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔ مندوبین چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے ہوٹل اور جامعہ جاتے ہوئے نظر آئے اور بہت بھلے معلوم ہو رہے تھے۔
اس کانفرنس کے انعقاد سے دنیا بھر کے سترہ ممالک سے آئے ہوئے اردو دان مرد و خواتین کو ایک جگہ اکھٹے ہونے اور باہم گفت و شنید کا موقع میسر آیا۔ ایسی تقریبات سے دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے ہم پیشہ افراد کو ایک دوسرے کیساتھ ملنے جلنے اور اپنی خیالات کا تبادلہ کرنے کا موقع میسر آتا ہے اور مل جل کر ایک دوسرے کی تجاویز اور تجربے سے مستفید ہو تے ہوئے اپنے اپنے کام میں بہتری لا سکتے ہیں۔ درس و تدریس ایسا شعبہ ہے کہ اس میں ہر گذرنے والے دن کیساتھ بہتری اور نکھار پیدا کرنے کی ضرورت رہتی ہے تاکہ آئیندہ نسلوں کو علم و ہنر کے زیور سے لیس کیا جا سکے۔ اس کانفرنس کے انعقاد سے یہ مقاصد پورے ہو گئے۔
سمپوزیم کے دوران پروفیسرڈاکٹر خلیل طوقار کی طبیعت بھی ناساز ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے مختلف مواقع پر خود موجود رہ کر مندوبین کی حوصلہ افزائی کی اور اردو سے اپنی وابستگی کا اظہار بھی کیا۔ سمپوزیم کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اردو کو اپنی محبوبہ قرار دیا اور کہا کہ ہم اس محبوب اور ہر دلعزیز زبان کو مرتا ہؤا نہیں دیکھ سکتے۔ اس کی بقا اور احیا کے لئے ہر سطح پر ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ ڈاکٹر طوقار کے اس محبت بھرے اعلان اور عہد کا بھرپور تالیوں سے خیرمقدم کیا گیا۔
اس بات کا انکشاف بھی پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نے اپنی تحقیق کے دوران کیا کہ ترکی میں اردو زبان کم از کم سو برس سے متعارف ہے۔ بلکہ 1915 میں ہی ہندوستان سے آئے ہوئے خیری برادران کی جدوجہد اور کوششوں سے اس زبان کی تدریس استنبول یونیورسٹی میں ہونے لگی تھی۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ زبان عام سطح پر اس برس سے بہت پہلے ترکی پہنچ چکی تھی۔ پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نے نہ صرف تاریخی حوالوں سے ترکی میں اردو کی تدریس ، صحافت اور اردو دانوں کی موجودگی کا سراغ لگایا ہے بلکہ دن رات انتھک محنت کے ذریعے استنبول یونیورسٹی میں اردو کو ایک مقبول مضمون کی حیثیت سے بھی متعارف کروایا ہے۔ سمپوزیم کے دوران پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کے ساتھی اور طالب علم یکساں طور سے سمپوزیم کو کامیاب بنانے اور مندوبین کو سہولتیں بہم پہنچانے کے لئے سرگرم رہے۔ اس طرح اردو اور اس کے ماہرین سے ترک طالب علموں کی محبت سب شرکا کے لئے باعثِ طمانیت تھی۔
اس عالمی اردو سمپوزیم کے افتتاحی اجلاس سے استنبول یونیورسٹی کے وائس چانسلر ، استنبول کے میئر اور استنبول میں بھارتی قونصل خانہ کے نگران کے علاوہ پاکستانی سفارتخانے کے نمائندے نے شرکت کی۔ اس موقع پر مقررین نے اس سمپوزیم کو اردو زبان کے علاوہ ترکی اور پاک و بھارت تعلقات کے حوالے سے بھی اہم سنگ میل قرار دیا۔ بھارتی قونصل جنرل نے خطاب کرتے ہوئے تاریخی حوالوں سے ہندوستان اور ترکی کے تعلقات اور دونوں خطوں کے عوام کے روابط پر روشنی ڈالی۔ اس حوالے سے بھارتی سفارتکار کے علاوہ دیگر مقررین نے بھی خاص طور سے تحریک خلافت کا ذکر کیا جو سلطنت عثمانیہ کی حمایت میں شروع کی گئی تھی اور ہندوستان کی مقبول اور طاقتور ترین تحریکوں میں شامل ہے۔ افتتاحی اجلاس میں سفارتی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی کمی محسوس کی گئی تاہم اختتامی اجلاس میں انقرہ میں متعین پاکستانی سفیر سہیل محمود نے شرکت کر کے اس کمی کو پورا کر دیا۔
حکومت پاکستان نے ترکی میں اردو تدریس کے سو برس مکمل ہونے پر ایک یادگاری پوسٹل ٹکٹ بھی جاری کیا ہے۔ سفیر پاکستان نے پرزور تالیوں کے شور میں اس کا اعلان کیا اور اس ٹکٹ کی تصویر بھی حاضرین کو دکھائی۔ سفیر پاکستان نے اردو کے لئے ڈاکٹر خلیل طوقار کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 30 کتابیں اور 200 تحقیقی مقالے لکھے ہیں جو ایک گراں مایہ علمی خدمت ہے۔ پاکستانی سفیر نے امید ظاہر کی کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے اردو زبان کے فروغ کے علاوہ ترکی اور پاکستان کے تعلقات بھی مزید مضبوط اور گہرے ہوں گے۔ اس اجلاس میں لندن سے آئے ہوئے اردو کے ممتاز پاکستانی نژاد شاعر سلمان شاہد نے ایک قرار داد پیش کی جس میں حکومت پاکستان سےپروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقارکی اردو کے فروغ اور مختلف ملکوں کے عوام کو قریب لانے کے لئے کوششوں کے صلے میں سول ایوارڈ دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ یہ قرار داد اتفاق رائے سے منظور ہوگئی اور سفیر پاکستان کے ذریعے حکومت پاکستان کو بھجوا دی گئی۔
کانفرنس کے دوران برصغیر میں مسلمانوں کی تحریک آزادی میں خلافت عثمانیہ کا کردار ، اردو کی ترویج کے نئے امکانات ، جنوبی ایشیا اور ترک، اردو بطور شناخت ، اردو تدریس کے مختلف پہلو، مختلف ممالک میں اردو زبان کی صورتحال اور دیگر اہم اور دلچسپ موضوعات پر مقالے پیش کئے گئے۔ ترکی میں اردو تدریس کے سو سال مکمل ہونے پر برپا ہونے والے اس جشن کے حوالے سے کانفرنس کا موضوع “ ترکی اور برصغیر کے مسلمان“ مقرر کیا گیا تھا اس لئے زیادہ تر مقالے بھی اسی موضوع کی مناسبت سے پیش کئے گئے۔
استنبول میں سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس شروع ہونے سے ایک روز قبل انقرہ میں ایک خود کش حملہ میں ایک سو سے زیادہ افراد شہید ہوگئے تھے۔ اس سانحہ پر ترک حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے اثرات کانفرنس اور اس میں شریک ہونے والے مندوبین پر بھی دیکھے گئے۔ افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مندوب اور ترک امور کے ماہر اور محقق فرخ سہیل گوئیندی نے دہشت گردی کے اس واقع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مرنے والوں کے احترام میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی تجویز دی۔ سب حاضرین نے اس طرح مرحومین کو خراج عقیدت پیش کیا۔ دیگر مقررین نے بھی اس سانحہ پر اظہار افسوس کیا۔ اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سفیر پاکستان سہیل محمود نے دہشت گردی کے اس واقع کی مذمت کرتے ہوئے ترک حکومت اور عوام کے ساتھ اظہر افسوس و ہمدردی کیا۔
کانفرنس میں چونکہ بیک وقت تین مختلف ہالز میں اجلاس منعقد ہو رہے تھے اس طرح تمام مندوبین کو اپنے اپنے مقالہ جات پیش کرنے کا وقت دیا گیا۔ میزبانپروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقارنے بتایا کہ ترکی میں اردو زبان ایک صدی سے زائد عرصے سے پڑھائی جا رہی ہے ، جب خیری برادران نے ترکی میں اردو کی تدریس کا کام شروع کیا تھا۔ مقررین نے تاریخی حوالوں سے برصغیر پاک و ہند کے ترکی کیساتھ روابط پر روشنی ڈالی۔
فن لینڈ سے ارشد فاروق نے فن لینڈ میں اردو زبان کی ترویج و ترقی اور اسکے مستقبل کے حوالے سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ تاہم کانفرنس کے آخری دن سفیر پاکستان جناب سہیل محمود نے کانفرنس میں شرکت کی۔ انہوں نے حاضرین کی تالیوں کی گونج میں حکومت پاکستان کی طرف سے اس موقع پر دس روپے کا یاد گاری ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کا اعلان بھی کیا۔ برطانیہ سے آیے ہوئے معروف شاعر جناب سلمان شاہد نے جناب خلیل طوقار کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ موصوف اردو زبان کی تیس کتابوں کے مصنف اور کئے مقالہ جات تحریر کر چکے ہوئے ہیں اس لیے ان کی اردو زبان کے ساتھ محبت اور ان کے گراں قدر کام کے بدلے میں انہیں پاکستان کے سول اعزاز کے ساتھ نوازا جائے۔ یہ بات ایک قرارداد کی صورت میں پیش کی گئی جس کی بھر پور تائید ہال میں موجود سینکڑوں مندوبین نے ہاتھ اٹھا کر کی۔
کانفرنس کے آخری اجلاس کی نظامت کی ذمہ داری ڈنمارک سے آئی ہوئی معروف لکھاری صدف مرزا کے حصے میں آئی، انہوں نے اپنے مخصوص دوستانہ اور مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے فی البدیہ انداز میں اس ذمہ داری کو خوب نبھایا اور مندوبین اور حاضرین سے خوب داد وصول کی۔ اس موقع پر ترکی اور وسط ایشیاء میں مسلمانوں کے حوالے سے ایک تصویری نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا۔ نمائش کاافتتاح سفیر پاکستان جناب سہیل محمود نے کیا اور انہوں نے نہایت دلچسپی کیساتھ یہ نمائش دیکھی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کانفرنس کے مندوبین نے تینوں دن ہوٹل کے ہال میں مشاعرے منعقد کئے اور ایک دوسرے کے کلام کو سنا اور سراہا۔ کانفرنس کے آخری دن روانگی کی شام مندوبین نے اپنے ہر دلعزیز میزبان پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کو ایک سرپرائز کیک پارٹی دی اور اس طرح یہ تاریخی کانفرنس نہائت خوشگوار انداز میں اختتام پذیر ہوئی۔
اس کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے سترہ ممالک سے مندوبین نے شرکت کی، جن میں ترکی استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے اساتذہ اور طلباء و طالبات کے علاوہ امریکہ سے معروف شاعر، محقق، استاد اور ادیب جناب ڈاکٹر ستیہ پال آنند اور محترمہ بینا گوئیندی، کینیڈا سے زندہ با دکینیڈا ریڈیو کی اینکر اور شاعرہ محترمہ عروج راجپوت، ناروے سے اردو ٹیلی ویژ ن کے روح رواں جناب ڈاکٹر ندیم حسین سید، جناب محمد ادریس احمد، روزنامہ کارواں کے روح رواں جناب ڈاکٹر مجاہد حسین سید، ڈنمارک سے اردو ادب کی معروف لکھاری، شاعرہ، ٹی وی اینکر پرسن اور کئی کتابوں کی مصنفہ محترمہ صدف مرزا، فن لینڈ سے فنش زبان کے واحد تحریری اور فنش ادب کی پانچ کتابوں کے مترجم اور فن لینڈ میں حلقہ ارباب ذوق کے بانی ارشد فاروق، برطانیہ سے اردو ادب کا سرمایہ اور بی بی سی اردو ریڈیو سروس کے جناب رضا علی عابدی، معرو ف لکھاری جناب مقصود الہی شیخ، محترمہ مہہ جبیں غزل انصاری اور انکے شوہر جناب انیس انصاری، فرانس سے محترمہ سمن شاہ، پاکستان سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے پروفیسر نجیب جمال، اردو ادب کا سرمایہ معروف افسانہ نگار اور نقاد و محقق محترمہ عطیہ سید ، خیر پور یونیورسٹی سے ڈاکٹر یوسف خشک اور انکی اہلیہ، معروف شاعرہ محترمہ فاطمہ حسن ، اورینٹل کالج پنجاب یو نیو رسٹی شعبہ اردو کے صدر نشین جناب پروفیسر محمد کامران، شعبہ پنجابی کے صدر، فیصل آباد جی سی یونیورسٹی سے پروفیسر طارق ہاشمی کے علاوہ کراچی سے زبان یار من ترکی کے مصنف ، اور لاہور سے معروف صحافی اور دانشور جناب فرخ سہیل گوئیندی ، اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد ، پروفیسر نگار سجاد ظہیر ، فاطمہ حسن ، اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد قاسم بوگھیواور کئی دوسرے معروف اردو دان خواتین و حضرات نے شرکت کی۔
ماسکو یونیورسٹی سے پروفیسر لوڈ میلا، کویت سے جناب افروز عالم، ہندوستان سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کے شعبہ اردو کے جناب ڈاکٹرخواجہ اکرام الدین ، ناول نگار نند کشور وکرم،سید انوار عالم، نجمہ رحمانی ،ڈاکٹر سلیم محی الدین، اور دیگر نے شرکت کی۔ اسی طرح بنگلہ دیش، ایران اور افغانستان کی جامعات میں اردو کی درس و تدریس کے ماہرین اور اساتذہ نے بھی بھر پور شرکت کی۔ اس طرح یہ کانفرنس حقیقی معنوں میں ایک عالمگیر اجتماع کی حیثیت اختیار کر گئی۔