[wpc-weather id=””/]صف اول کے کالم نگار بابا الف نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال ہمارے حکمرانوں کی منافقت کی علامت ہے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد بھارت سے ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینا کبھی ہماری سول اور عسکری قیادت کے حاشیہ خیال میں نہیں آیا۔ کشمیر کے باب میں بھی جب مردہ جذبوں کو صدا دی جاتی ہے تو بڑے غصے سے دریافت کیا جاتا ہے ’’کیا انڈیا پر حملہ کردیں؟‘‘ اس کے جواب میں کہا جائے کہ حضور! اگر انڈیا اسلام آباد، کراچی یا لاہور پر حملہ کردے تب بھی ہم اسی طرح جنگ سے بھاگتے رہیں گے۔ اسی سراسیمگی کا مظاہرہ کریں گے۔ ہم موت سے ڈرنے لگے ہیں؟۔ تباہی سے ہمیں خوف آتا ہے۔ قومیں معرکہ آرائیوں کے ذریعے کامیابی کی مزلیں طے کرتی ہیں اور معرکہ آرائیوں میں تباہی سے گریز ممکن نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ تباہی نہیں ہے۔ دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں دس پندرہ برس ہم نے تباہی وبربادی کو بہت قریب سے دیکھا اور بھگتا ہے۔ ایک تباہ شدہ قوم کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ مسمار شہر ازسرنو آباد کیے جاسکتے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ ہمارے اندر بھارت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیںہے۔ فتح وشکست کا فیصلہ میدان سے پہلے ذہن میں ہوتا ہے۔ ہم دل میں بھارت سے شکست قبول کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بہنوں بیٹیوں اور مائوں کی پامال عزتیں، سروں سے کھینچی گئیں چادریں اور جوانوں کے خون میں ڈوبے لاشے دیکھ کر بھی ہماری قیادت کے خون میں حرارت پیدا نہیں ہوتی۔ خطرے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر یکھنے کی جرات اور دشمن کے مقابل صف آرائی کے بجائے ہم گرم جوش تقاریر اور ظالم کے مقابل صبر کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری قیادت کی اسلامی غیرت اور جہاد کی روح مردہ ہوچکی ہے۔
ہمارے ایٹم بم، آئے دن تجربہ کیے جانے والے رنگ برنگ میزائل، دنیا کی چھٹی طاقتور ترین فوج!! دنیا نے دیکھ لیا ان اسباب کے ہونے کے باوجود ہم کیا کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔ بھارت کے مقابل ہم کتنے گھبرائے ہوئے ہیں۔ گرفت کمزور ہو تو دھمکی مذاق بن کر رہ جاتی ہے۔ ہماری صبر اور شرافت کی پالیسیوں کا اب تک کیا نتیجہ نکلا۔ عالمی برادری کی لاتعلقی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے بلکہ انڈیا کے جارحانہ رویے میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔ تشدد، محاصرے، گھر گھر تلاشی، گرفتاریاں، ٹارچر کیمپ، قتل وغارت، فوجوں سے بھری ہوئی سڑکیں۔ بھارتی افواج کشمیر میں اب جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے نہیں مسلمانوں کی نسل کشی کے پروگرام پر عمل کررہی ہے۔ ایک پوری قوم کا صفایا کیا جارہا ہے۔ ہر کشمیری اپنی باری کے انتظار میں، صدموں، الجھنوں اور خوف کی علامت بنا ہوا ہے اور یہاں محض دھمکیوں پر اکتفا کیا جارہا ہے ’’مودی پاکستان پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرنا،یہ تمہاری آخری غلطی ہوگی‘‘۔ عسکری محاذ ہو یا سیاسی میدان ہمارے کاغذی شیر موزوں اقدامات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ کن دوست ممالک کو کشمیر کے معاملے پر اپنے موقف سے ہم آہنگ کرنے میں ہم نے کامیابی حاصل کی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی تان عالمی برادری کو صدا لگانے پر آکر ٹوٹ جاتی ہے۔ عالم اسلام کے کسی ملک کا معاملہ ہوتو اس عالمی برادری کو کیا کرنا ہوتا ہے؟ کیا ہم بالکل ہی ناسمجھ ہوگئے ہیں یا اس کی اداکاری کررہے ہیں۔ کمزور اور جزوی عالمی اخلاقی دبائو!! بھارت کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ بے جان مجسمے بھی اس کا ادراک کرسکتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کے عقیدے کے قلعے میں دراڑ آجائے، ناممکن۔ انڈیا کے مقابل جب تک ہم عملی طور پر جارحانہ اقدامات نہیں کریں گے عالمی برادری جنبش نہیں کرے گی۔ عالمی برادری کی جنبش سے صورت حال میں کیا تغیر رونما ہوگا؟ اس سے کیا فرق پڑے گا؟ یہ کوئی راکٹ سائنس کا سوال نہیں جب کہ معاملہ مسلمانوں کا ہو۔
امریکا کے سامنے ہماری قیادت کا حال اس گدھے جیسا ہے جو تیزرفتار گاڑیوں سے بھری ہوئی سڑک کے بیچوں بیچ سر جھکائے کھڑا ہو۔ خطرہ اس کے ارد گرد منڈلا رہا ہو لیکن اسے خبر نہ ہو۔ تاہم کشمیر کے معاملے میں امریکی ثالثی پر ہمارے حکمرانوں کی زبانیں خوب چلتی ہیں۔ کس عمدگی کے ساتھ وہ ٹرمپ کو کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کررہے ہوتے ہیں جیسے ٹرمپ کو پتا ہی نہ ہو۔ کشمیر کے موضوع پر ان کی فتوحات کا سلسلہ اقوام متحدہ اور امریکا کی ثالثی پر آکر رک جاتا ہے۔ امریکا کی ثالثی نے فلسطین کو کہاں پہنچا دیا۔ اس کی تفہیم کے لیے غیر معمولی ذہانت کی ضرورت نہیں۔ بند آنکھوں سے بھی امریکا کے ہاتھوں فلسطینیوں کی بربادی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ کیا ہم کشمیر میں بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے ایک موقع پر کہا تھا ’’مسئلہ کشمیر کسی ثالثی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ حق خودارادیت کے انعقاد کو منصفانہ اور شفاف بنانے کی تفصیلات طے کرنے کا ہے اس لیے کوئی بھی ملک ثالثی کے جھانسے میں کشمیریوں کی لازوال جدوجہد کو ہائی جیک نہیں کرسکتا اور نہ کسی پاکستانی حکمران کو ثالثی کے نام پر بٹوارے کی جسارت کا سوچنا چاہیے‘‘۔
ہمارے حکمرانوں کے نزدیک کشمیر بھارتی ریاستی دہشت گردی، جبر واستبدادکا مقابلہ کرنے کا نام نہیں ہے۔ یوم کشمیر کے ٹیبلو، جھنڈے لہرانے، نعرے لگانے، آئی ایس پی آر کے نغمے جاری کرنے، عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجوڑنے پر مبنی تقاریر کرنے، حکومتی ارکان، وزیروں اور مشیروں کے بیانات کا نام ہے۔ کشمیر حریت، کشمیر کونسل، کشمیر فورم، کشمیر اتحاد، کشمیر فرنٹ، کشمیر یہ کشمیر وہ جیسی جماعتیں اہل کشمیر کو آزادی سے سرفراز کرنے کے نام پر اپنے وجودکا احساس دلانے کے لیے میدان میں اتر آتی ہیں۔ رنگ برنگی جماعتیں، رنگ برنگی جھنڈیاں، رنگ برنگے اقدام، 5فروری کی چھٹی، ڈراموں اور جھوٹے خواب کشمیر کے نام پر ہماری جدوجہد کا یہی ماحصل ہے۔ دو سو دن ہونے کو آرہے ہیں کشمیر جیل بنا ہوا ہے لیکن ہماری سول اور فوجی قیادت ان ڈرامے بازیوں سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مودی کی جنگ کی دھمکیاں ایک سیاست دان کی چالبازیوں اور مکاریوں کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت جس اندرونی خلفشار سے دوچار ہے وہ جنگ کے لیے تیار ہے اور نہ ایٹمی جنگ کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں خود بھارت بھی پتھر کے زمانے میں چلا جائے گا۔ بھارت کشمیر کی خاطر پورے ہندوستان کو دائو پر نہیں لگا سکتا۔ پاکستان سے جنگ کی صورت میں جو کمزور بھارت جنم لے گا وہ چین کے لیے تر نوالہ ثابت ہو، بھارتی حکمران اس کے لیے تیار نہیں ہوسکتے۔ جنگ کے بعد کمزور بھارت کے لیے ان آزادی کی تحریکوں سے نمٹنا بھی آسان نہیں رہے گا جو بھارت کے متعدد علاقوں میں برپا ہیں۔
اہل کشمیر کی مدد کی صورت میں جنگ چھڑ جانے کا خوف، جس کی ہماری معیشت متحمل نہیں ہوسکتی، چڑھتے سورج جیسی یہ وہ دلیل ہے جس کا سہارا لے کر ہمارے حکمران بھارت کے خلاف کسی بھی کاروائی سے گریزاں ہیں۔ معیشت کے باب میں ہمارے حکمرانوں کی ژولیدہ فکری اور الجھائو جن بے سروپا اقدامات کی صورت اپنا اظہار کرتی رہتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کوئی معجزہ ہی ہو تو ہو ورنہ تاقیامت ہماری معیشت کے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا امکان نہیں۔ تو پھر کیا قیامت تک ہم کشمیر کی اپنی مائوں، بہنوں، بیٹیوں، جوانوں اور بزرگوں کو بھارت کے ظلم، تشدد اور وحشی پن کے سپرد کیے رکھیں تادیر کہ کشمیر کا ہر گھر اور ہرفرد ویران ہوجائے۔ افغان مجاہدین سے ہم کب سبق سیکھیں گے جنہوں نے بے سروسامانی کی حالت میں 42ممالک کی افواج اور کھربوں ڈالر کے جی ڈی پی کو ناک رگڑنے پر مجبور کردیا۔ آج معیشت کی کمزوری کے نام پر ہم کشمیر سے دست بردار ہو گئے ہیں تو کل اسلام آباد لاہور اور کراچی پر بھارتی حملے کی صورت میں ہم ان شہروں سے بھی دستبرادر ہوجائیں گے؟۔ ہم اپنے دریائوں سے دستبردار ہوگئے، آدھے ملک سے دستبردار ہوگئے اور اب کشمیر سے دستبردار ہورہے ہیں۔ دستبردار ہونے کا یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا؟ دستبردار ی کا شیطان کب تک ہم پر حکومت کرتا رہے گا؟