یورپی یونین اور ترکی یونان میں پناہ گزینوں کی آمد روکنے کے لیے ایک معاہدہ طے کرنے کے قریب ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مجوزہ معاہدے کو سنگدلانہ قرار دیا ہے۔
پیر کو دیر گئے برسلز میں ہونے والے مذاکرات میں یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا تھا کہ ’’یورپ میں بے ضابطہ ہجرت کے دن پورے ہو چکے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’مغربی بلقان کے راستے کے ذریعے پناہ گزینوں کی بے ضابطہ آمد اب ختم ہو چکی ہے۔ اس تبدیلی کو سہل بنانے کے لیے ہم نے یونان کی مدد اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔‘‘
اصولی طور پر ترکی سے یونان بے قاعدہ طور پر آنے والے تمام مہاجرین کو واپس بھیج دیا جائے گا۔
انقرہ چاہتا ہے کہ یورپ سے ترکی واپس بھیجے جانے والے ہر شامی کے بدلے یورپی یونین ترکی کی سرزمین پر موجود سرکاری طور پر تسلیم شدہ ایک شامی پناہ گزین کو قبول کرے۔ دیگر ملکوں سے آنے والے پناہ گزینوں کے بارے میں ان کے کوائف کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور امدادی تنظیم ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے مجوزہ معاہدے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ترکی کو یورپ کے سرحدی محافظ کے طور پر استعمال کیا جائے گا تو اس سے پناہ گزینوں کے لیے خطرہ بڑھے گا کیونکہ ترکی تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے لیے ایک محفوظ ملک نہیں اور وہاں ان کے حقوق کی کئی خلاف ورزیوں کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بھی مجوزہ معاہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے اس معاہدے کو ’’گیم چینجنگ‘‘ یعنی تقدیر بدلنے والا قرار دیا ہے۔
’’ہمارا مقصد انسانی سمگلروں کو روکنے کے لیے غیر قانونی ہجرت کو روکنا اور منظم اور باقاعدہ قانونی ہجرت کی حوصلہ افزائی کرکے ان لوگوں کی مدد کرنا ہے جو یورپ جانا چاہتے ہیں۔‘‘
بلقان ریاستوں کی طرف سے پناہ گزینوں کے زیر استعمال شمالی راستے پر پہرہ سخت کرنے کے بعد ہزاروں پناہ گزین یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں۔
واپس بھیجے جانے والے پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے ترکی نے یورپی یونین سے کہا ہے کہ وہ اس بحران سے نمٹنے والی امداد کو دو گنا کر کے 6.6 ارب کرے۔
انقرہ اپنے شہریوں کے لیے یورپی یونین کے سفر میں ویزہ کی شرط کو ختم کرنے اور یورپی یونین کے ساتھ الحاق کے عمل کو تیز کرنے کا بھی مطالبہ کر رہا ہے۔
مقدونیہ کی سرحد پر موجود اکثر پناہ گزین بھی اس مجوزہ معاہدے سے متعلق آنے والی خبروں پر نالاں ہیں۔
یہاں موجود ایک عراق پناہ گزین کا کہنا تھا کہ وہ کسی صورت بھی واپس ترکی نہیں جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ترکی واپس نہیں جائے گا کیونکہ ان کے پاس جو رقم تھی وہ پہلے ہی ترکی میں خرچ ہو چکی ہے۔ “مجھے نہیں معلوم کیا ہو رہا ہے، ہمیں صرف یہاں انتظار کرنا ہے۔”