اسلام آباد (ویب ڈیسک ) آشیانہ ہائوسنگ کے معاملے، جسے نیب ایک بڑا وائٹ کالر اسکینڈل قرار دے رہا ہے، میں کامران کیانی کی ایک گمشدہ کڑی بھی ہے جو سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے بھائی ہیں۔ جو دلچسپ بات اب تک نیب لاہور کو نظر نہیں آئی وہ یہ حقیقت ہے کہ کالسنز کو دیے گئے آشیانہ ہائوسنگ کے ٹھیکے کی تنسیخ کا عمل کامران کیانی (جب ان کے بھائی آرمی چیف تھے) کی وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بھیجی گئی شکایت پر شروع ہوا تھا کہ کالسنز کو فائدہ پہچانے کیلئے ٹینڈرنگ کے عمل میں ساز باز اور غلط اقدامات کیے گئے ہیں۔ کامران کیانی کی تعمیراتی کمپنی ConPro (کون پرو) کے نام سے تھی اور اس کمپنی نے بھی آشیانہ ہائوسنگ کے ٹھیکے کیلئے بولی میں حصہ لیا تھا تاہم اسے ٹھیکہ نہیں ملا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کامران کیانی کی شکایت ایک سی ڈی کے ساتھ ارسال کی گئی تھی جس میں ایک آڈیو ریکارڈنگ اور تصویر موجود تھی جس سے اشارہ ملتا تھا کہ ٹینڈرنگ کے عمل میں ساز باز اور غلط اقدام کیا گیا ہے۔ اس شکایت کے بعد، شہباز شریف نے معاملہ اس وقت کے سیکریٹری خزانہ پنجاب (جو اب اسٹیٹ بینک کے گورنر ہیں) طارق باجوہ کی زیر قیادت ایک کمیٹی کو بھیج دیا۔ اس کمیٹی میں مدعی پیش ہوئے اور انہوں نے سی ڈی کی شکل میں شواہد پیش کیے۔ اس سی ڈی میں انجینئرز اور کنٹریکٹرز کے درمیان ہونے والی بات چیت کی ریکارڈنگ موجود تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ کچھ لوگ ٹینڈر جمع کیے جانے کے وقت کالسنز کی جانب سے فارم میں خالی چھوڑی گئی جگہوں کو فراڈ کرتے ہوئے پُر کر رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق، تصویر میں کالسنز کے نمائندو کو پی ایل ڈی سی کے انجینئر کے ہمراہ کسی جگہ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق، کامران کیانی نے الزام عائد کیا کہ کالسنز نے جان بوجھ کر فارم میں اہم جگہیں پر نہیں کیں جنہین بعد میں کالسنز اور پی ایل ڈی سی کے انجینئرز نے مل کر ٹھیکہ حاصل کرنے کے مقابلے میں شامل دیگر کمپنیوں کے نرخوں کو دیکھ کر پر کیا۔ اگرچہ اس کمیٹی کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں کنٹریکٹ کے حوالے سے مکمل کارروائی اور کنٹریکٹ دیے جانے کا عمل پی پی آر اے کے قواعد کے مطابق ہوا، لیکن کمیٹی نے مندرجہ ذیل باتوں کی نشاندہی کی: 1) یہ دانشمندی ہوتی کہ اگر بولی میں حصہ لینے والے تمام 13؍ پری کوالیفائیڈ کمپنیوں کو بولی حاصل کی جاتی، 2) بولیوں کیلئے لفافے 3؍ دسمبر 2012ء کو کھولے گئے جبکہ بولی کی دستاویزات 4؍ دسمبر 2012ء کو کنسلٹنٹ کے سپرد کی گئیں حالانکہ یہ کام اسی دن ہونا چاہئے تھا، 3) میسرز ای سی ایس پی (انجینئرنگ کنسلٹنٹ سروسز لمیٹڈ) کو براہِ راست میسرز کون پرو کی پری کوالیفکیشن دستاویزات قبول نہیں کرنا چاہئے تھا۔ کمیٹی نے کامران کیانی کے الزامات اور ان کی جانب سے شواہد پر مبنی سی ڈی کا بھی جائزہ لیا اور سفارش کی کہ میسرز کون پرو کے الزامات اور ای سی ایس پی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ کیے جانے والے انکشافات آزادانہ انکوائری کا تقاضا کرتے ہیں اور وزیراعلیٰ کی انسپکشن ٹیم (سی ایم آئی ٹی) کو اس پر کام کرنے کیلئے کہا جا سکتا ہے۔ طارق باجوہ کمیٹی کی سفارشات پر وزیراعلیٰ نے کامران کیانی کے الزامات کی تحقیقات اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ کے حوالے کر دی۔ باجوہ کمیٹی کی رپورٹ موصول ہونے پر فواد حسن فواد نے فائل پر وزیراعلیٰ کی جانب سے کیا جانے والا فیصلہ لکھا: ’’مذکورہ بالا رپورٹ (باجوہ رپورٹ) وزیراعلیٰ کے روبرو پیش کی گئی اور وہ کمیٹی کے نتائج سے اتفاق نہین کرتے، وزیراعلیٰ کے اس حوالے سے مشاہدات یہ ہیں: 1) میسرز ای سی ایس پی نے بولی میں حصہ لینے والوں میں سے ایک کامران کیانی کی کون پرو کمپنی) کے پری کوالیفکیشن دستاویزات قبل کیے اور یہ اسے دی گئی ذمہ داری کے دائرہ کار سے باہر ہے، 2) ٹینڈرنگ کیلئے ابتدائی طور پر 30؍ نومبر 2012ء کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ تاہم، ٹینڈرنگ کمیٹی کے ارکان کی مداخلت پر مذکورہ تاریخ اور وقت میں کچھ گھنٹوں کی توسیع کی گئی تاکہ تمام شرکاء میں سے ایک سی ڈی آر پیش کر سکے، 3) ایک اور پارٹی کی جانب سے پیش کردہ سی ڈی آر نیلامی کی دستاویزات میں وضع کردہ شرائط کے مطابق نہیں تھیں کیونکہ سی ڈی آر کی 50؍ فیصد مالیت نان شیڈول بینک سے فراہم کی گئی تھی جبکہ شرط یہ تھی کہ مالیت صرف ایک ہی شیڈول بینک کے ذریعے فراہم کی جائے، 4) نتیجتاً، پری کوالیفائیڈ نیلامی میں شریک ہونے والی تمام 13؍ کمپنیوں کیلئے تاریخ میں توسیع کرنے کی بجائے صرف تین فریقوں سے کہا گیا کہ وہ 3؍ دسمبر 2012ء یعنی تین دن بعد، ٹینڈر پیش کریں، ان 13؍ کمپنیوں میں سے بیشتر ابتدائی تاریخ پر شرکت نہیں کر پائے تھے، 5) نیلامی کی دستاویزات، جن کے صرف پہلے صفحے پر کمیٹی ارکان کے دستخط تھے، غیر قانونی طور پر پی ایل ڈی سی کے دفتر ایک دن کیلئے روکے رکھی گئیں حالانکہ انہیں فوری طور پر پروجیکٹ کنسلٹنٹ یعنی میسرز ای سی پی کے حوالے کر دینا چاہئے تھا، اور 6) نیلامی میں شریک کمپنیوں میں سے ایک (جسے ٹھیکہ ملا ہے) نے ٹھیکیدار اور پروجیکٹ ڈائریکٹر کے درمیان بات چیت کے حوالے سے توسیعی کنٹریکٹ کے متعلق کچھ دستاو یز ی شواہد پیش کیے ہیں، یہ بات چیت پروجیکٹ ڈائریکٹر کی رہائش گاہ پر ٹینڈرنگ کی تاریخ کی شام کو ہوئی تھی جس نے ٹینڈر کی دستاویزات غیر قانونی طور پر پروجیکٹ ڈائریکٹر پاس رکھی گئی تھیں۔ یہ نوٹنگ کرنے کے بعد فواد حسن فواد نے یہ ہدایت نامہ جاری کیا: ’’معاملات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ، وزیراعلیٰ چاہتے ہیں کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ فوری طور پر تین رکنی کمیٹی تشکیل دے جس کے سربراہ ڈائر یکٹر ایس سی ای کے عہدے سے کم نہ ہوں، تاکہ ٹینڈرنگ اور ٹھیکہ دیے جانے کے پورے عمل کی تحقیقات ہو سکے۔‘‘ عجیب بات ہے کہ نیب نے کامران کیانی کو ان کی جانب سے کی گئی شکایت کی تصدیق کیلئے طلب کیا ہے اور نہ ہی کسی عدالت میں شواہد پر مشتمل سی ڈی پیش کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے اس معاملے کی انکوائری شروع کیے جانے کے بعد اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ نے سی ڈی سمیت تمام ریکارڈ نیب کے حوالے کر دیا تھا۔ فواد حسن فواد کے خاندان کے ذرائع نے الزامات کو بکواس قرار دیا ہے کہ انہوں نے اپنے اکائونٹ میں کچھ رقم منتقل کرنے کے عوض کامران کیانی کو فائدہ پہنچایا۔ ان کا اصرار ہے کہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر فواد حسن فواد کی جانب سے لکھے گئے ہدایت نامے کے پہلے پیراگراف میں انہوں نے مدعی کامران کیانی کی کمپنی کون پرو کو یہ کہتے ہوئے بے دخل کر دیا تھا کہ کیانی نے ٹھیکہ حاصل کرنے کیلئے اپنی بولی براہِ راست ای سی ایس پی کنسلٹنٹس کوجمع کرائی جو طے شدہ طریقہ کار کی خلاف ورزی ہے۔ کالسنز کا ٹھیکہ منسوخ کیے جانے کے معاملے میں، کامران کیانی کا کردار اہمیت کا حامل ہے لیکن اس اہم پہلو اور ان کی جانب سے پیش کردہ شواہد پر نیب توجہ مرکوز نہیں کر رہا۔ اس خبر میں پیش کردہ تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ کامران کیانی کو شہباز شریف یا فواد حسن سے کوئی حمایت نہیں ملی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فواد حسن فواد کی پنجاب سے روانگی کے دو سال بعد یہ ہائوسنگ پروجیکٹ پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ نئے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ ماڈل کے تحت سی اے ایس اے (CASA) کو دیا گیا۔